رنگ سے پیرہن سادہ حنائی ہو جائے
Appearance
رنگ سے پیرہن سادہ حنائی ہو جائے
پہنے زنجیر جو چاندی کی طلائی ہو جائے
خود فروشی کو جو تو نکلے بہ شکل یوسف
اے صنم تیری خریدار خدائی ہو جائے
خط توام کی طرح عاشق و معشوق ہیں ایک
دونوں بے کار ہیں جس وقت جدائی ہو جائے
تنگی گوشۂ عزلت ہے بیاں سے باہر
نہیں امکان کہ چیونٹی کی سمائی ہو جائے
یہی ہر عضو سے آتی ہے صدا فرقت میں
وقت یہ وہ ہے جدا بھائی سے بھائی ہو جائے
اپنی ہی آگ میں اے برقؔ جلا جاتا ہوں
عنصر خاک ہو تربت جو لڑائی ہو جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |