رکھتا ہے صلح سب سے دل اس کا پہ مجھ سے جنگ
Appearance
رکھتا ہے صلح سب سے دل اس کا پہ مجھ سے جنگ
غیروں کے حق میں موم ہے اور میرے حق میں سنگ
کیسا وصال کس کا فراق اور کہاں کا عشق
تھی عالم جوانی کی بس یہ بھی اک ترنگ
کیا تب ملے گی آہ مجھے آرزوئے دل
مر جائے گی تڑپ کے مرے جی کی جب امنگ
حیراں میں اپنے حال پہ چوں آئینہ نہیں
عالم کے منہ کو دیکھ کے میں رہ گیا ہوں دنگ
آتا ہے کیا نظر اسے شعلہ میں شمع کے
دیتا ہے جان بوجھ کے کیوں اپنا جی پتنگ
لیتا تھا نام غیر نکل آیا میرا نام
آخر جھلک گیا ہے محبت کا رنگ ڈھنگ
واقف نہیں نشاں سے میں اس یار کے حسنؔ
جس کے لئے اڑا دیا سب اپنا نام و ننگ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |