رکھتا ہے گو قدیم سے بنیاد آگرہ
Appearance
رکھتا ہے گو قدیم سے بنیاد آگرہ
اکبر کے نام سے ہوا آباد آگرہ
یاں کے کھنڈر نہ اور جگہ کی عمارتیں
یارو عجب مقام ہے دل شاد آگرہ
شداد زر لگا نہ بناتا بہشت کو
گر جانتا کہ ہووے گا آباد آگرہ
توڑے کوئی قلعے کو کوئی لوٹے شہر کو
اب کس سے اپنی مانگے بھلا داد آگرہ
اب تو ذرا سا گاؤں ہے بیٹی نہ دے اسے
لگتا تھا ورنہ چین کا داماد آگرہ
یک بارگی تو اب مجھے یارب تو پھر بسا
کرتا ہے اب خدا سے یہ فریاد آگرہ
اک خوبرو نہیں ہے یہاں ورنہ ایک دن
تھا رشک حسن بلخ و نوشاد آگرہ
ہرگز وطن کی یاد نہ آوے اسے کبھی
جو کر کے اپنی جاں کو کرے شاد آگرہ
اس میں سدا خوشی سے رہا ہے ترا نظیرؔ
یارب ہمیشہ رکھیو تو آباد آگرہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |