Jump to content

رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض

From Wikisource
رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض
by ماہ لقا بائی
304238رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیضماہ لقا بائی

رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض
دامن میں لیا اپنے ہے دریا نے گہر فیض

پر نور عجب کیا ہے کرے مجھ کو کرم سے
رکھتی ہے دو عالم پہ تری ایک نظر فیض

اک جام پہ بخشے ہے یہاں رتبہ جسم کو
کس کی نگہ مست سے رکھتا ہے خمر فیض

محروم نہیں کوئی ترے خوان کرم سے
ہے حصر خدائی کا ہی تجھ پہ مگر فیض

چنداؔ رہے پرتو سے ترے یا علی روشن
خورشید کو ہے در سے ترے شام و سحر فیض


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.