رہا کرتے ہیں مے خانوں میں ہم پیر مغاں ہو کر
رہا کرتے ہیں مے خانوں میں ہم پیر مغاں ہو کر
طبیعت زندہ دل رکھتی ہے پیری میں جواں ہو کر
چھپے تھے قبر میں گردش زدہ کیا شادماں ہو کر
یہاں بھی ساتھ ہے دوران سرکا آسماں ہو کر
ہوا ہے شہرہ داغوں کا نثار گل رخاں ہو کر
اڑی بوئے وفا میری نسیم بوستاں ہو کر
جھکے گی رفتہ رفتہ شاخ نخل قد کماں ہو کر
کھنچے گا طول فرقت کا زہ تیر فغاں ہو کر
مشابہ کر دیا کیوں ضعف نے ان کی نزاکت سے
مجھے خود اپنے اوپر رشک آیا ناتواں ہو کر
گئی رونق بھی چہرے کی حواس و عقل جاتے ہیں
اڑا سب رنگ رخ وحشت میں گرد کارواں ہو کر
زمیں پر سوزش غم سے گرے گا آسماں جل کر
شرار دل چلا سر حلقۂ دور فغاں ہو کر
تصدق ان پہ ہوتا ہوں جو شعلے دل سے اٹھتے ہیں
بسر کرتا ہوں میں پروانۂ شمع فغاں ہو کر
فنا ہو کر کہیں مٹتی ہے یا رب شورش وحشت
فغاں کرتا ہوں میں زنجیر باب لا مکاں ہو کر
خدا سمجھے ہماری آہ سوزاں سے جدائی میں
کہ ساری دل کی طاقت اڑ گئی منہ سے دھواں ہو کر
دل نالاں نے ہم سایوں کو بھی دشمن کیا اپنا
رہا کرتے ہیں ہم بتیس دانتوں میں زباں ہو کر
ہمیشہ سے نظرؔ ہم محو یاد روئے روشن ہیں
چمک اس درد کی رسی سے ہم دل میں نور جاں ہو کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |