رہنے والوں کو ترے کوچے کے یہ کیا ہو گیا
Appearance
رہنے والوں کو ترے کوچے کے یہ کیا ہو گیا
میرے آتے ہی یہاں ہنگامہ برپا ہو گیا
تیرا آنا تھا تصور میں تماشا شمع رو
میرے دل پر رات پروانوں کا بلوا ہو گیا
ضبط کرتا ہوں ولے اس پر بھی ہے یہ جوش اشک
گر پڑا جو آنکھ سے قطرہ وہ دریا ہو گیا
اس قدر مانا برا میں نے عدو کا سن کے نام
آخر اس کی ایسی باتوں کا تماشا ہو گیا
کیا غضب ہے التجا پر موت بھی آتی نہیں
تلخ کامی پر ہماری زہر میٹھا ہو گیا
دیکھ یوں خانہ خرابی غیر واں قابض ہوا
جس کے گھر کو ہم یہ سمجھے تھے کہ اپنا ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |