Jump to content

رہوں کاہے کو دِل خستہ پھروں کاہے کو آوارہ

From Wikisource
رہوں کاہے کو دِل خستہ پھروں کاہے کو آوارہ
by نظیر اکبر آبادی
331977رہوں کاہے کو دِل خستہ پھروں کاہے کو آوارہنظیر اکبر آبادی

رہوں کاہے کو دِل خستہ پھروں کاہے کو آوارہ
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دِل ما را

خُدا گر مُجھ گدا کو سلطنت بخشے تُو میں یارو
بہ خال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

ہم اپنا تُو بہشت و چشمۂ کوثر سمجھتے ہیں
کنار آب رکناباد و گلگشت مصلیٰ را

زمیں پر آیا جب یوسف اسی دِن آسماں رویا
کے عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را

یہ ظالم سنگ دِل محبوب جادوگر ستم پیشہ
چناں بردند صبر از دِل کے ترکاں خوان یغما را

جُو صاحب حسن ہیں ہرگز نہیں محتاج زینت کہ
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را

بتوں کی گالیوں میں بھی عجب لذت نکلتی ہے
جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خا را

تُو ہستی کی گرہ پر عقل کہ ناخن نہ توڑ اے دِل
کے کس نکشود و نکشاید بہ حکمت ایں معما را

نظیرؔ اس لطف سے تضمین کر تُو مصرعہ حافظ
کے بر نظم تو افشاند فلک عقد ثریا را


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.