رہے رقیب سے باہم وہ سیم بر محظوظ
Appearance
رہے رقیب سے باہم وہ سیم بر محظوظ
ہوا نہ آہ کا اپنے کبھی اثر محظوظ
دریغ چشم کرم سے نہ رکھ کہ اے ظالم
کرے ہے دل کو مرے تیری یک نظر محظوظ
نہ بار بار ہوس ہو نبات کی مجھ کو
رکھے جو ایک ہی بوسہ میں لب شکر محظوظ
تماشہ ایک خدائی کا ہم دکھاتے ہیں
تو کیجئے بندہ نوازی ہوئے ہو مگر محظوظ
یہی دعا ہے کہ چنداؔ کا دل علی ولی
تیرے کرم سے رہے شام اور سحر محظوظ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |