زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
Appearance
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
وہ خود اگر کہیں ملتا تو گفتگو کرتے
وہ زخم جس کو کیا نوک آفتاب سے چاک
اسی کو سوزن مہتاب سے رفو کرتے
سواد دل میں لہو کا سراغ بھی نہ ملا
کسے امام بناتے کہاں وضو کرتے
وہ اک طلسم تھا قربت میں اس کے عمر کٹی
گلے لگا کے اسے اس کی آرزو کرتے
حلف اٹھائے ہیں مجبوریوں نے جس کے لیے
اسے بھی لوگ کسی روز قبلہ رو کرتے
جنوں کے ساتھ بھی رسمیں خرد کے ساتھ بھی قید
کسے رفیق بناتے کسے عدو کرتے
حجاب اٹھا دیے خود ہی نگار خانوں نے
ہمیں دماغ کہاں تھا کہ آرزو کرتے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |