زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں
زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں
دل اب زندگی سے خفا چاہتا ہوں
ادا کو ادا آشنا چاہتا ہوں
تجھی پر تجھے مبتلا چاہتا ہوں
وفا چاہتے ہیں وفا چاہتا ہوں
وہ کیا چاہتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں
محبت کو رسوا کیا چاہتا ہوں
نظر محرم التجا چاہتا ہوں
تعین غم عشق کا چاہتا ہوں
انہیں چاہتا ہوں یہ کیا چاہتا ہوں
ترے دل کو درد آشنا چاہتا ہوں
بھلا چاہتا ہوں برا چاہتا ہوں
بہت تنگ ہے وہم ہستی کی دنیا
میں عالم ہی اب دوسرا چاہتا ہوں
شب ہجر تیرا تصور ہی تو ہے
تجھے آج تجھ سے جدا چاہتا ہوں
مری موت ماتم کا حسن طلب ہے
سکوں ایک ہنگامہ زا چاہتا ہوں
خطا ڈھونڈتا ہوں عطاؤں کے قابل
عطا چاہتے ہیں خطا چاہتا ہوں
پھر اس بزم کو ڈھونڈتی ہیں نگاہیں
پھر اک شکوۂ برملا چاہتا ہوں
وہ فریاد کا عہد پھر یاد آیا
پھر اک نالۂ نارسا چاہتا ہوں
پھر آداب فرقت ہیں ملحوظ یعنی
ہجوم بلا در بلا چاہتا ہوں
پھر اک سجدۂ توبہ کی آرزو ہے
تجھے آپ سے پھر خفا چاہتا ہوں
پھر امیدوار کرم ہوں کہ فانیؔ
ستم ہائے شوق آزما چاہتا ہوں
کوئی وجہ تسکیں نہیں غم نہ راحت
خدا جانے فانیؔ میں کیا چاہتا ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |