زخم ہے اور نمک فشانی ہے
Appearance
زخم ہے اور نمک فشانی ہے
دوستی دشمنیٔ جانی ہے
نقش اول ہے چہرۂ یوسف
اور ترا چہرہ نقش ثانی ہے
تیرے کوچے سے مانع رفتار
ہم کو اپنی ہی ناتوانی ہے
حسن میں چہرہ اس گل تر کا
نقش رنگین کلک مانی ہے
اس پہ پروانے گو ہجوم کریں
شمع کی وہ ہی کم زبانی ہے
اس سرا میں سبھی مسافر ہیں
یعنی جو ہے سو کاروانی ہے
عالم اس کی صفا کا مجھ سے نہ پوچھ
نظم میں تیری جو روانی ہے
مصحفیؔ شعر سادہ کہنے میں
وقت کا اپنے تو فغانی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |