زمزمہ کس کی زباں پر بہ دل شاد آیا
Appearance
زمزمہ کس کی زباں پر بہ دل شاد آیا
منہ نہ کھولا تھا کہ پر باندھنے صیاد آیا
قد جو بوٹا سا ترا سرو رواں یاد آیا
غش پہ غش مجھ کو چمن میں تہ شمشاد آیا
لے اڑی دل کو سوئے دشت ہوائے وحشت
پھر یہ جھونکا مجھے کر دینے کو برباد آیا
کس قدر دل سے فراموش کیا عاشق کو
نہ کبھی آپ کو بھولے سے بھی میں یاد آیا
دل ہوا سرو گلستاں کے نظارے سے نہال
شجر قامت دل دار مجھے یاد آیا
ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز
اڑ گئے ہوش جو پر کاٹنے صیاد آیا
ہو گیا حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے
ہم نے دیکھا جو قفس کو تو فلک یاد آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |