Jump to content

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں

From Wikisource
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
by فانی بدایونی
299757زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیںفانی بدایونی

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

بے ادب گریۂ محرومئ دیدار نہیں
ورنہ کچھ در کے سوا حاصل دیوار نہیں

آسماں بھی ترے کوچہ کی زمیں ہے لیکن
وہ زمیں جس پہ ترا سایۂ دیوار نہیں

ہائے دنیا وہ تری سرمہ تقاضہ آنکھیں
کیا مری خاک کا ذرہ کوئی بیکار نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.