زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
Appearance
زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
عالم وہی ہے آج تلک انتظار کا
گزرا شراب پینے سے لے کون درد سر
ساقی دماغ کس کو ہے رنج خمار کا
محشر کے روز بھی نہ کھلے گی ہماری آنکھ
صدمہ اٹھا چکے ہیں شب انتظار کا
عبرت کی جا ہے عالم دنیا نہ کر غرور
سر کاسۂ گدا ہے کسی تاجدار کا
بعد فنا بھی ہے مرض عشق کا اثر
دیکھو کہ رنگ زرد ہے میرے غبار کا
الفت نہ کچھ پری سے نہ کچھ حور سے ہے عشق
مشتاق برقؔ روز ازل سے ہے یار کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |