سارے کشتوں سے جدا ڈھنگ اضطراب دل کا ہے
سارے کشتوں سے جدا ڈھنگ اضطراب دل کا ہے
کیوں نہ ہو بسمل بھی تو کس چلبلے قاتل کا ہے
چھپ نہیں سکتا وہ خون اپنے دل بسمل کا ہے
مٹ نہیں سکتا جو دھبہ دامن قاتل کا ہے
امتحاں مد نظر کس منچلے بسمل کا ہے
معرکہ آرا جو یوں ہر ناز اس قاتل کا ہے
بے اجازت اٹھ کے سینہ سے لگائے آپ کو
حوصلہ اتنا بھی اک ارمان والے دل کا ہے
آپ کو یاد آ گئیں ہیں کس کی بزم آرائیاں
حضرت دل کہیے تو قصد آج کس محفل کا ہے
اس طرف مچلا ہوا ہے وصل میں وہ چلبلا
اس طرف جوش اضطراب آرزوئے دل کا ہے
وصل کی شب خون کرنا آرزوئے وصل کا
او تمناؤں کے دشمن کام یہ قاتل کا ہے
معرکہ آرائیاں ہیں آج حسن و عشق کی
سامنا اس جلوہ گہ میں دل ربا سے دل کا ہے
اپنے آدھی رات کو آنے کا باعث کیوں بنے
وہ کہیں قائل بھی جذب الفت کامل کا ہے
موت آئی ہے مجھے او بحر خوبی وصل میں
میرا بیڑا ڈوبنے والا لب ساحل کا ہے
سینہ سے سینہ ملا دینا تو کچھ مشکل نہیں
یار مشکل تو ترے دل سے ملانا دل کا ہے
شوخیٔ قاتل میں ہے بسمل کا رنگ اضطراب
رنگ بسمل کی تڑپ میں شوخئ قاتل کا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |