ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا
ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا
دیدۂ شوق تماشا ہے تماشا نہ رہا
دل رہا دل میں مگر جوش تمنا نہ رہا
انجمن رہ گئی اور انجمن آرا نہ رہا
ہے وہی طور وہی برق وہی شان جمال
ہاں کوئی آگ سے اب کھیلنے والا نہ رہا
دامن موج بھی ہاتھوں سے چھٹا جاتا ہے
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا نہ رہا
آج وہ سر ترے قدموں پہ جھکا جاتا ہے
جو حرم میں بھی کبھی ناصیہ فرسا نہ رہا
یک بیک یوں نہ سر بزم اٹھانی تھی نقاب
جلوے بیتاب ہیں اور دیکھنے والا نہ رہا
رہ گئی آنکھ بھی کچھ اشک بہا کر خاموش
یعنی دل قابل اظہار تمنا نہ رہا
دل کہیں تھا کہیں نظریں تھیں خیالات کہیں
میں رہا بزم میں اس طرح کہ گویا نہ رہا
مژدۂ وصل سنا کر بھی اسے دیکھ لیا
ترا دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہا
یوں تو ہر ایک سے کہتے تھے فسانہ دل کا
اس نے جب پوچھا تو پھر کہنے کا یارا نہ رہا
پھر بھی کچھ دل کو تسلی سی تو ہوتی ہے منیرؔ
گو کبھی منتظر وعدۂ فردا نہ رہا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |