ساقیا ابر ہے دے جام شتاب ایک پر ایک
Appearance
ساقیا ابر ہے دے جام شتاب ایک پر ایک
آج محفل میں گرے مست شراب ایک پر ایک
گل بازی ہے حسینوں میں مرا افسانہ
پھینک دیتا ہے محبت کی کتاب ایک پر ایک
جوش پر ہے جو ترا حسن تو اے پردہ نشیں
روز کرتا ہے غضب بند نقاب ایک پر ایک
توڑ اس طرح سے اے نالۂ دل ساتوں فلک
کہ گریں ٹوٹ کے یہ خانہ خراب ایک پر ایک
لب جو سیر کو آیا ہے جو وہ بحر جمال
ٹوٹا پڑتا ہے تماشے کو حباب ایک پر ایک
یاد آتی ہے انہیں دم بہ دم اک بات نئی
روز آتا ہے مرے خط کا جواب ایک پر ایک
جب کبھی داغؔ کیا ہم نے سوال بوسہ
سیکڑوں اس نے دئے سخت جواب ایک پر ایک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |