ساقی نامہ (میر تقی میر)
ہے قابل حمد وہ سرانداز
جو سب میں ہوا ہے جلوہ پرداز
اس کو مئے حسن نے چھکایا
ہستی کا نشہ اسی سے آیا
پی ان نے شراب خودپرستی
طاری ہوئی اس پہ زور مستی
وہ مست شراب ناز ہے فرد
خورشید ہے اس کا جام پرورد
ہے گردش چشم اس سے افسوں
پھر جائے ہے جس کے ساتھ گردوں
ظلمت ہے دوئی کی تجھ سے احول
آخر ہے وہی وہی ہے اول
عالم ہے قرابۂ مئے خام
ہے دور سپہر گردش جام
مشہور جہاں جو کیف و کم ہے
بے نشہ جو ہووے تو ستم ہے
وہ مست نیاز ہے حرم میں
وہ رفتۂ ناز ہے صنم میں
ہے آب رخ زمانہ اس سے
روشن ہے تمام خانہ اس سے
مینا میں جو سرکشی ہے وہ ہے
صہبا میں جو دلکشی ہے وہ ہے
شمشاد ہے سرفراز اس سے
گل دیدۂ نیم باز اس سے
خوگر اسے نازپیشگی ہے
وہ ہے کہ جسے ہمیشگی ہے
عکس اس کا پڑا ہے جام مے میں
آتی ہے صدا اسی کی نے میں
ہے جلوہ گری میں یاں بصد ناز
وہ مست گزارہ و سرانداز
سو رنگ ہیں اس کے یاد رکھ تو
ہر جلوہ سے دل کو شاد رکھ تو
عالم میں جو کچھ نمود میں ہے
ہر لحظہ اسے سجود میں ہے
کر یاد اسی کو اور مے پی
جیتا رہے کوئی دن تو خوش جی
اب روے سخن چمن کو کریے
میناے دل اور مے سے بھریے
آئی ہے بہار مے گساراں
پھولے ہیں چمن میں گل ہزاراں
آئی ہے بہار و ہر خیاباں
ہے لطف ہوا سے گل بہ داماں
آئی ہے بہار زہدکیشاں
ہے توبۂ بادہ دل پریشاں
آئی ہے بہار مرغ گلزار
کرتا ہے نواے سینہ افگار
لایا ہے بہ زور اس کا نالہ
مجھ کو بھی براے سیر لالہ
ساقی جو کروں میں بے ادائی
معذور رکھ اب بہار آئی
گل باد صبا کے تا کمر ہے
دامان بلند ابر تر ہے
غنچہ کی گلابیاں بھری ہیں
تکلیف کی منتظر دھری ہیں
ظالم مئے ناب دے ہوا ہے
یک جرعہ شراب دے ہوا ہے
ہر سر میں ہے شور فصل دے کا
جھمکے ہے ہوا سے رنگ مے کا
اطراف چمن کھلا ہے لالہ
ہر پھول شراب کا ہے پیالہ
آیا ہے چمن پہ ابر جوشاں
آب رخ کار سبزپوشاں
تحریک نسیم دم بہ دم ہے
تکلیف ہواے گل ستم ہے
ابروں نے بھی کی ہے مے پرستی
اٹھتے ہیں بصد سیاہ مستی
بوندوں کا جو لگ رہا ہے جھمکا
رنگ گل و لالہ زور چمکا
ہے گل کی ہوا سبو کشی میں
بلبل کا دماغ بوکشی میں
ہر شاخ ہے شوخ جام در دست
نرگس ہے کسو کی نرگس مست
ہے رنگ ہوا کا آفتابی
جھومیں ہیں نہال جوں شرابی
ہے سرو جوان نشہ در سر
لوٹے ہے روش پہ سبزۂ تر
چشمک کرے ہے حباب جو کا
یعنی کہ ہے دور اب سبو کا
ساقی قدحے کہ ذوق مل ہے
مطرب غزلے کہ فصل گل ہے
غزل
شب وہ جو پیے شراب نکلا
جانا یہ کہ آفتاب نکلا
قربان پیالۂ مئے ناب
جس سے کہ ترا حجاب نکلا
تجھ بن جو پیا تھا قرط مے کا
آنکھوں سے ہو خون ناب نکلا
مستی میں شراب کی جو دیکھا
عالم یہ تمام خواب نکلا
شیخ آتے تو مے کدے میں آیا
پر ہو کے بہت خراب نکلا
یک جرعہ شراب ہی میں واعظ
ہر مسخرگی کا باب نکلا
تھا غیرت بادہ عکس گل سے
جس جوے چمن سے آب نکلا
ہو صرف شراب کاش ساقی
یہ شیشۂ عمر ہے جو باقی
بے ساغر مے خنک ہے جینا
رکھتا ہے شگوں شراب پینا
لا بادۂ کہنہ سال نو ہے
سجادہ بھی بابت گرو ہے
دروازۂ مے کدہ کھلا ہے
ہر پیر و جواں کو الصلا ہے
اینڈے ہے ہر ایک مست جوں تاک
لیتے نہیں نام دامن پاک
ہر مغبچہ فتنہ زیر سر ہے
ہر گوشے میں عالم دگر ہے
مستی نگاہ عقل دشمن
خوبی خرام مرد افگن
کہتے گئے صاحب کرامات
ہم ہی نہیں قابل خرابات
جو لوگ کہ اس جگہ سے اٹھے
کب حلقہ و خانقہ سے اٹھے
یاں پیتے ہیں جام بے خودی کا
ہے دور تمام بے خودی کا
مستی سے ہر ایک صبح صد بار
خورشید کا سر ہے اور دیوار
ہے قابل سیر خرقہ پوشاں
دریا دلی شراب نوشاں
ان لوگوں کی ہر کمینہ صف میں
کشتی ہے شہ و گدا کی کف میں
ہر کوچے میں رہتی تھی منادی
تا رسم خردوری اٹھا دی
از خود شدن اک مقام ہے گا
وہ مرتبہ یاں مدام ہے گا
ہرچند ہے دور پر کہاں تک
اک لغزش پا میں یاں سے واں تک
بے خود ہو کہ یہ حجاب اٹھے
دل یاں سے کہیں شتاب اٹھے
پہنچیں ہیں فنا کو بے خودی سے
پاتے ہیں خدا کو بے خودی سے
پی جرعہ و ہوش کو دعا کہہ
ہر بادہ فروش کو دعا کہہ
وشش میں ہے بادۂ کہن سال
عبرت ہو جسے خوش اس کا احوال
اب دل میں مرے بھی جوش آیا
اب وقت وداع ہوش آیا
کھینچوں میں کہاں تلک دم سرد
ساقی وہ شراب شعلہ پرورد
وہ داروے درد بے حضوراں
وہ مایۂ نور چشم کوراں
سرمایۂ عمر جاودانی
یعنی وہی آب زندگانی
وہ میوۂ خوش رسیدہ بارے
وہ عیش دل گزیدہ بارے
آئینۂ حسن خودپسنداں
زینت دہ عنبریں کمنداں
وہ رنگ رخ بہار یعنی
وہ بادۂ خوش گوار یعنی
یاقوت گداز دادۂ عشق
یعنی وہی جام بادۂ عشق
وہ لطف ہوا وہ سیر مہتاب
وہ شعلۂ غوطہ خورد در آب
وہ کام دل سبو بدوشاں
یعنی کہ وہی شراب جوشاں
وہ موجب دل خوشی کہاں ہے
وہ داروے بے ہشی کہاں ہے
وہ جس کی طرف کو ہے تہ دل
یعنی وہی ماہ شیشہ منزل
وہ آتش تیز آب آمیز
وہ عربدہ جو وہ فتنہ انگیز
وہ مقصد جان ناامیداں
وہ روسیہی روسفیداں
وہ رونق کارگاہ شیشہ
وہ شوکت بارگاہ شیشہ
وہ جس سے ہے توبہ موپریشاں
وہ جس سے ہو گفتگو پریشاں
وہ دامن خشک جس سے جل جائے
ثابت قدموں کا پاؤں چل جائے
وہ سرخی چشم خوب رویاں
اسباب خرابی نکویاں
وہ دلبر خودسر و شلائیں
وہ رہزن راہ دین و آئیں
وہ جس سے غبار دل سے دھوؤں
مینا کے گلے سے لگ کے روؤں
مستی کی مجھے بھی خواہشیں ہیں
اس عقل سے دل کو کاہشیں ہیں
لا اس کو جو آستین جھاڑوں
پھر ہاتھ چلے تو جیب پھاڑوں
بے ہوش شراب ناب رہیے
یوں تا بہ کجا کباب رہیے
ہے مستی بے خودی ضروری
کھل جائے مقام بے شعوری
دل غم سے بھرا ہے زور میرا
تا عرش گیا ہے شور میرا
ہے دل میں کہ گل کی اور رو ہو
شیشہ ہو بغل میں اور تو ہو
ہر گام پہ لغزش قدم ہو
تکلیف شراب دم بہ دم ہو
جب سجدہ کناں ہوں صبح خیزاں
جب کاکل صبح ہو پریشاں
جب نکلے ستارۂ سحرگہ
کر نعرۂ الصبوح یک رہ
ہے ذوق شراب صبح گاہی
بے لطف نہیں ہے روسیاہی
جب ہووے نشہ ترنگ آوے
مستی مجھے باغ میں لٹاوے
شیشہ مرے منھ کو تو لگاوے
کر ایسی نگاہ جو چھکاوے
جب بے خودی تمام آوے
سر پر مرے ہوش رو کے جاوے
رخصت ہے تجھے کہ میں نہ ہوں گا
بے ہوش و خرد ہی پھر رہوں گا
بیٹھا تو کروں گا شکر تیرا
ہو ورنہ قبول عذر میرا
مقولۂ شاعر
کیا میرؔ شراب تونے پی ہے
بیہودہ یہ گفتگو جو کی ہے
یا آب سیہ ترے قلم نے
یہ تجھ سے عجب کیا ہے ہم نے
تو کاہے کو اتنا ہرزہ گو تھا
کب در گرو شراب تو تھا
بس مے سے زباں کو اب نہ تر کر
مستی سخن پہ ٹک نظر کر
ہے نشۂ سامعہ دوبالا
پھر حرف نہ جائے گا سنبھالا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |