Jump to content

ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب

From Wikisource
ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
by ماہ لقا بائی
304235ساقی ہے گرچہ بے شمار شرابماہ لقا بائی

ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
نہیں خوش تر سوائے یار شراب

قتل پر کس کے آج ہوتی ہے
توسن حسن پر سوار شراب

رکھ کرم پر ترے نظر مجرم
نوش کرتے ہیں بے شمار شراب

ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی
چاہتے ہیں جو بار بار شراب

یا علی حشر میں دو چنداؔ کو
آب کوثر کی خوش گوار شراب


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.