Jump to content

سامان دیوالی کا

From Wikisource
سامان دیوالی کا
by نظیر اکبر آبادی
316065سامان دیوالی کانظیر اکبر آبادی

ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا

جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تیوہار
کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار
کھلونے کھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازار
ہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار
سبھوں کو فکر ہے اب جا بجا دوالی کا

مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی
پکارتے ہیں کہ "لا لا! دوالی ہے آئی"
بتاشے لے کوئی برفی کسی نے تلوائی
کھلونے والوں کی ان سے زیادہ بن آئی
گویا انہوں کے واں راج آ گیا دوالی کا

صرف حرام کی کوڑی کا جن کا ہے بیوپار
انہوں نے کھایا ہے اس دن کے واسطے ہے ادھار
کہے ہے ہنس کے قرض خواہ سے ہر اک اک بار
دوالی آئی ہے سب دے دلائیں گے اے یار
خدا کے فضل سے ہے آسرا دوالی کا

مکان لیپ کے ٹھلیا جو کوری رکھوائی
جلا چراغ کو کوڑی وہ جلد جھنکائی
اصل جواری تھے ان میں تو جان سی آئی
خوشی سے کود اچھل کر پکارے او بھائی
شگون پہلے کرو تم ذرا دوالی کا

شگن کی بازی لگی پہلے یار گنڈے کی
پھر اس سے بڑھ کے لگی تین چار گنڈے کی
پھری جو ایسی طرح بار بار گنڈے کی
تو آگے لگنے لگی پھر ہزار گنڈے کی
کمال نرخ ہے پھر تو لگا دوالی کا

کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
جو کچھ تھی جنس میسر بنا بنا ہاری
کسی نے چیز کسی کسی کی چرا چھپا ہاری
کسی نے گٹھری پڑوسن کی اپنی لا ہاری
یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دوالی کا

کسی کو داؤ پہ لانکّی موٹھ نے مارا
کسی کے گھر پہ دھرا سوختہ نے انگارا
کسی کو نرد نے چوپڑ کے کر دیا زارا
لنگوٹی باندھ کے بیٹھا ازار تک ہارا
یہ شور آ کے مچا جا بجا دوالی کا

کسی کی جورو کہے ہے پکار اے پھڑوے
بہو کی نوگرے بیٹے کے ہاتھ کے کھڑوے
جو گھر میں آوے تو سب مل کیے ہیں سو گھڑوے
نکل تو یاں سے ترا کام یاں نہیں بھڑوے
خدا نے تجھ کو تو شہدا کیا دوالی کا

وہ اس کے جھونٹے پکڑ کر کہے ہے ماروں گا
ترا جو گہنہ ہے سب تار تار اتاروں گا
حویلی اپنی تو اک داؤ پر میں ہاروں گا
یہ سب تو ہارا ہوں خندی تجھ بھی ہاروں گا
چڑھا ہے مجھ کو بھی اب تو نشا دوالی کا

تجھے خبر نہیں خندی یہ لت وہ پیاری ہے
کسی زمانے میں آگے ہوا جو جواری ہے
تو اس نے جورو کی نتھ اور ازار اتاری ہے
ازار کیا ہے کہ جورو تلک بھی ہاری ہے
سنا یہ تو نے نہیں ماجرا دوالی کا

جہاں میں یہ جو دیوالی کی سیر ہوتی ہے
تو زر سے ہوتی ہے اور زر بغیر ہوتی ہے
جو ہارے ان پہ خرابی کی فیر ہوتی ہے
اور ان میں آن کے جن جن کی خیر ہوتی ہے
تو آڑے آتا ہے ان کے دیا دوالی کا

یہ باتیں سچ ہیں نہ جھوٹ ان کو جانیو یارو!
نصیحتیں ہیں انہیں دل سے مانیو یارو!
جہاں کو جاؤ یہ قصہ بکھانیو یارو!
جو جواری ہو نہ برا اس کا مانیو یارو
نظیرؔ آپ بھی ہے جواریا دیوالی کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.