سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا ایسا خبط مذہب کیا
اک اشارۂ فردا ایک جنبش لب کیا
دیکھ دکھاتا ہے وعدہ تذبذب کیا
چلو بھر میں متوالی دو ہی گھونٹ میں خالی
یہ بھری جوانی کیا جذبۂ لبالب کیا
ہاں دعائیں لیتا جا گالیاں بھی دیتا جا
تازگی تو کچھ پہنچے چاہتا رہوں لب کیا
شامت آ گئی آخر کہہ گیا خدا لگتی
راستی کا پھل پاتا بندۂ مقرب کیا
الٹی سیدھی سنتا رہ اپنی کہہ تو الٹی کہہ
سادہ ہے تو کیا جانے بھانپنے کا ہے ڈھب کیا
سب جہاد ہیں دل کے سب فساد ہیں دل کے
بے دلوں کا مطلب کیا اور ترک مطلب کیا
ہو رہے گا سجدہ بھی جب کسی کی یاد آئی
یاد جانے کب آئے زندہ داریٔ شب کیا
آندھیاں رکیں کیوں کر زلزلے تھمیں کیوں کر
کارگاہ فطرت میں پاسبانیٔ رب کیا
کار مرگ کے دن کا تھوڑی دیر کا جھگڑا
دیکھنا ہے یہ ناداں جینے کا ہے کرتب کیا
پڑ چکے بہت پالے ڈس چکے بہت کالے
موذیوں کے موذی کو فکر نیش عقرب کیا
میرزا یگانہؔ واہ زندہ باد زندہ باد
اک بلائے بے درماں کیا تھے تم اور اب کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |