سب مخالف جب کنارے ہو گئے
Appearance
سب مخالف جب کنارے ہو گئے
ہم میں اور اس میں اشارے ہو گئے
آئے اور بیٹھے نہ کچھ شکوہ نہیں
یہ غنیمت ہے کہ بارے ہو گئے
جب چڑھ آئی رو بہ رو فوج جنوں
ہم بھی سنمکھ ہو اتارے ہو گئے
ہجر نے اس کو جلایا اس قدر
داغ سینے پر انگارے ہو گئے
جانتے تھے اپنے ہم ہوش و حواس
یک نگہ میں سب تمہارے ہو گئے
چشم تو تیغے تھے آگے ہی میاں
سرمہ دینے سے دو دھارے ہو گئے
کان کے موتی تری زلفوں میں رات
خلق کی نظروں میں تارے ہو گئے
جب ہوئے حاتمؔ ہم اس سے آشنا
دوست بھی دشمن ہمارے ہو گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |