Jump to content

سب میں ہوں پھر کسی سے سروکار بھی نہیں

From Wikisource
سب میں ہوں پھر کسی سے سروکار بھی نہیں (1900)
by حبیب موسوی
324727سب میں ہوں پھر کسی سے سروکار بھی نہیں1900حبیب موسوی

سب میں ہوں پھر کسی سے سروکار بھی نہیں
غافل اگر نہیں ہوں تو ہشیار بھی نہیں

قیمت اگر وہ دیتے ہیں تکرار بھی نہیں
کچھ ہم کو دل کے دینے میں انکار بھی نہیں

نسبت ہے جسم و روح کی اللہ رے اتحاد
سبحہ اگر نہیں ہے تو زنار بھی نہیں

بیٹھا ہوں اس کی یاد میں بھولا ہوں غیر کو
زاہد اگر نہیں ہوں ریاکار بھی نہیں

جائیں وہ قتل غیر کو ہم رشک سے مریں
ایسی تو اپنی جان سے بیزار بھی نہیں

آنا ہو آؤ ورنہ یہ کہہ دو نہ آئیں گے
سن لو یہ دو ہی باتیں ہیں طومار بھی نہیں

سودا تمام ہو گیا بازار اٹھ گیا
وہ دل بھی اب نہیں وہ خریدار بھی نہیں

طرز جفا بھی بھول گئی کیا وفا کے ساتھ
دل دار گر نہیں ہو دل آزار بھی نہیں

لیں گے ہزار در سے پلٹ کر در مراد
منعم نہ دیں تو کیا تری سرکار بھی نہیں

بھیجیں گے حسب حال انہیں گو نہ لکھ سکیں
کیا دامن اور دیدۂ خوں بار بھی نہیں

بلبل چمن کو دیکھ خزاں کے ستم کو دیکھ
گل کا تو ذکر کیا ہے کہیں خار بھی نہیں

آزاد ہیں شراب کے عادی نہیں حبیبؔ
احباب گر پلائیں تو انکار بھی نہیں


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.