سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑ
Appearance
سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑ
بد زباں اب تو اس زباں کو چھوڑ
مت اٹھا یار تیرے کوچے میں
آن بیٹھے ہیں دو جہاں کو چھوڑ
وقت سختی کے آہ جاتی ہے
جان بھی جسم ناتواں کو چھوڑ
صحبت راست کب ہو کج سے برآر
تیر آخر چلا کماں کو چھوڑ
دست بیداد باغباں سے آہ
ہم چلے آخر آشیاں کو چھوڑ
باغ سے وہ پھرا تو مرغ چمن
لگ چلے ساتھ گلستاں کو چھوڑ
ناتوانی سے مثل نقش قدم
رہے ناچار کارواں کو چھوڑ
ہم نشیں کہہ تمام قصۂ عشق
آج کل پر نہ داستاں کو چھوڑ
یہ مرا حال ہے جو وہ قاتل
اٹھ گیا دم کے میہماں کو چھوڑ
جس طرح پھیر حلق پر خنجر
دے کوئی مرغ نیم جاں کو چھوڑ
کر جوانی پہ رحم جرأتؔ کی
بس غم عشق اس جواں کو چھوڑ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |