سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
Appearance
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے
گھر سے باہر نہ نکلتا کبھی اپنے خورشید
ہوس گرمیٔ بازار لیے پھرتی ہے
وہ مرے اختر طالع کی ہے واژوں گردش
کہ فلک کو بھی نگوں سار لیے پھرتی ہے
کر دیا کیا ترے ابرو نے اشارہ قاتل
کہ قضا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی ہے
جا کے اک بار نہ پھرنا تھا جہاں واں مجھ کو
بے قراری ہے کہ سو بار لیے پھرتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |