سب کی سب کیا ہیں شب قدر ہماری راتیں
سب کی سب کیا ہیں شب قدر ہماری راتیں
کٹتی ہیں آنکھوں ہی میں ہجر کی ساری راتیں
ہائے کیا پیار سے سوتے تھے لپٹ کر اے جان
یاد ہر دم مجھے آتی ہیں وہ پیاری راتیں
دونوں زلفوں میں ہیں خورشید سے تاباں عارض
روز روشن کے برابر ہیں تمہاری راتیں
جو گھڑی ہے نظر آتی ہے مجھے ایک پہاڑ
ہیں غضب فرقت محبوب کی بھاری راتیں
ہجر میں صبح سے تا شام بجائے شبنم
میری آنکھوں سے لہو رکھتی ہیں جاری راتیں
سن پڑے رہتے ہیں بے یار اندھیرے میں ہم
ہیں شب گور کے مانند ہماری راتیں
شب تاریک جدائی میں یہ چلاتا ہوں
دق بہت کرتی ہیں یا حضرت باری راتیں
تیری زلفوں کے لیے شانہ بکف ہے ہر دن
اور کرتی ہیں تری آئینہ داری راتیں
فصل گل میں وہ گل تر نہیں گل کر دے چراغ
کہ سیہ چاہئیں اے باد بہاری راتیں
مرغ زرین فلک پر ہے یقین خفاش
کس قدر میرے دنوں میں ہوئیں ساری راتیں
دن کے بدلے بھی یہی آتی ہیں غم خواری کو
مجھ سے رکھتی ہیں بہت ہجر میں یاری راتیں
دن تو ناسخؔ کے بہ ہر حال گزر جاتے ہیں
پر جدائی میں بہت لاتی ہیں خواری باتیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |