Jump to content

ستا کر ستم کش کو کیا پائیے گا

From Wikisource
ستا کر ستم کش کو کیا پائیے گا
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق
318144ستا کر ستم کش کو کیا پائیے گاپنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

ستا کر ستم کش کو کیا پائیے گا
جو کی کچھ شکایت تو جھنجھلائیے گا

وہ برق تجلی کی جو جلوہ گاہ
وہیں حضرت دل نہ رہ جائیے گا

ادب کی جگہ مرنے والو ہے قبر
سمجھ کر یہاں پاؤں پھیلائیے گا

غریب اب تو قدموں میں ہی آ پڑا
دل ناتواں کو نہ ٹھکرائیے گا

خبر بھی ہے کچھ بار عصیاں کی شوقؔ
ہوئی واں جو پرسش تو شرمایئے گا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.