ستم تیر نگاہ دل ربا تھا
Appearance
ستم تیر نگاہ دل ربا تھا
ہمارے حق میں پیغام قضا تھا
ہوا اچھا کہ وہ گھر سے نہ نکلے
کسے معلوم کس کے دل میں کیا تھا
مجھے وہ یاد کرتے ہیں یہ کہہ کر
خدا بخشے نہایت باوفا تھا
امید وصل کی حالت نہ پوچھو
فقط اک آسرا ہی آسرا تھا
بہت اچھا ہوا وہ لے گئے دل
بڑا ضدی نہایت بے وفا تھا
نہیں معلوم اس کمسن کو یہ بھی
ہمارے دل میں کیا ہے اور کیا تھا
نہ پوچھو جلوہ گاہ ناز کا جمال
ہر اک محو جمال دل ربا تھا
سنا ہے مےکشی کرنے لگا ہجرؔ
وہ مرد باخدا تو پارسا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |