Jump to content

ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا

From Wikisource
ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
by میر تقی میر
315534ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہامیر تقی میر

ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا

کب اس کا نام لیے غش نہ آ گیا مجھ کو
دل ستم زدہ کس وقت اس میں جا نہ رہا

ملانا آنکھ کا ہر دم فریب تھا دیکھا
پھر ایک دم میں وہ بے دید آشنا نہ رہا

موئے تو ہم پہ دل پر کو خوب خالی کر
ہزار شکر کسو سے ہمیں گلہ نہ رہا

ادھر کھلی مری چھاتی ادھر نمک چھڑکا
جراحت اس کو دکھانے کا اب مزہ نہ رہا

ہوا ہوں تنگ بہت کوئی دن میں سن لیجو
کہ جی سے ہاتھ اٹھا کر وہ اٹھ گیا نہ رہا

ستم کا اس کے بہت میں نزار ہوں ممنون
جگر تمام ہوا خون و دل بجا نہ رہا

اگرچہ رہ گئے تھے استخوان و پوست ولے
لگائی ایسی کہ تسمہ بھی پھر لگا نہ رہا

حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میرؔ میں تھی
گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آ نہ رہا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.