سرسراہٹ
یہاں ان سلوٹوں پر ہاتھ رکھ دوں
یہ لہریں ہیں بہی جاتی ہیں اور مجھ کو بہاتی ہیں
یہ موج بادہ ہیں ساغر کی خوابیدہ فضا دل میں
اچانک جاگ اٹھتی ہے
حقیقت کے جہاں سے کوئی اس دنیا میں در آئے
تو اس کے ہونٹ متبسم ہوں شاید قہقہہ اٹھ کر
مرے دل کو جکڑ لے اپنے ہاتھوں سے
مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ لہریں ابھی تک ساحلی منظر سے ناواقف ہیں یوں ہی اک بہانا کر رہی ہیں اک بہانہ کس کو کہتے ہیں
بہانے ہی بہانے ہیں
بڑھا کر رکھ دیا لہروں پہ میں نے ہاتھ مرا ہاتھ اک کشتی کی مانند ایک موج تند
کی افتاد کے جلوے کو مرے سامنے لا کر ہوا ہے گم
یہ سب موج تخیل کی روانی تھی
مگر میں سوچتا ہوں بات جو کہنے کی تھی میں نے نہ کیوں پہلے ہی کہہ دی وقت کا
بے فائدہ مصرف
ہر اک پوشیدہ منظر کو
اگل ڈالے گا اک لمحہ وہ آئے گا
کہ جب اس بات کے سننے پہ سننے والے سوچیں گے
بہانہ کیا تھا سلوٹ کیا تھی موج بادہ بھی کیا تھی
مگر شب کی اندھیری خلوت گمنام کے پردے میں کھو کر ان کو یہ معلوم ہو جائے گا اک پل میں
اور اک لذت کے کیف مختصر میں کھو کے وہ بے ساختہ یہ بات کہہ اٹھیں گے کیا
مجھ کو اجازت ہے
یہاں ان سلوٹوں پر ہاتھ رکھ دوں یہ جھجک کیسی
یہ لہریں ہیں انہیں نسبت ہے کالی رات کے غم ناک دریا سے
جو بہتا ہی چلا جاتا ہے رکتا ہی نہیں پل کو
جسے کچھ بھی غرض اس سے نہیں میں ہاتھ رکھوں یا جھجک اس ہاتھ کو میرے
کلیجے سے لگا دے اور میں سو جاؤں ان لہروں کے بستر میں
کلیجے سے لگا دے اور میں سو جاؤں ان لہروں کے بستر میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |