سرسری بھی ہے کارگر بھی ہے
Appearance
سرسری بھی ہے کارگر بھی ہے
یہ کٹاری بھی ہے نظر بھی ہے
کسے تاکا کسے کیا بسمل
او کماندار کچھ خبر بھی ہے
کون کہتا ہے گل نہیں سنتے
آہ بلبل میں کچھ اثر بھی ہے
گو مری داستاں ہے طول بہت
تم سنو تو یہ مختصر بھی ہے
مجمع البرزخین ہے انسان
یہ فرشتہ بھی ہے بشر بھی ہے
نذر ہے جو پسند آئے تمہیں
دل بھی موجود ہے جگر بھی ہے
وار تیری نگہ کا روکے کون
کہیں اس تیغ کی سپر بھی ہے
یہ بھی خدمت میں سر بلند رہے
آئنہ دار اک قمر بھی ہے
ان کے وعدوں کا کچھ یقین نہیں
گفتگو میں اگر مگر بھی ہے
غیر نے تیغ پر گلہ نہ دھرا
کوئی میرا سا بے جگر بھی ہے
غیر کیا معرکے میں آئیں گے
بزدلوں کا یہاں گزر بھی ہے
اٹھو اکبرؔ چلو مدینے کو
اس سے بہتر کوئی سفر بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |