سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
کس کی پھر جھوٹی قسم کھائیے گا
تھام لوں دل کو ذرا ہاتھوں سے
ابھی پہلو سے نہ اٹھ جائیے گا
کہئے یاران عدم کیا گزری
کچھ لب گور سے فرمائیے گا
یوسف حسن اگر غم ہوگا
آپ یعقوب نظر آئیے گا
کر کے اثبات دہن کیجئے وصف
دیکھیے منہ کی ابھی کھائیے گا
کم بھی دینے میں بہت فائدہ ہے
بوسہ اک دیجئے دس پائیے گا
خط پہ خط لکھیے گا اے شاہ سوار
گھوڑی کاغذ کی بھی دوڑائیے گا
مردم چشم سے آئے جو حجاب
آنکھ کے پردے میں چھپ جائیے گا
کیا گریباں نے گلا گھونٹا ہے
ادھر اے دست جنوں آئیے گا
کہہ کے پاؤں سے چلے یار کے گھر
ہم جو اٹھنے لگیں سو جائیے گا
کہہ کے یہ تم ہو بڑے ہر بابے
در بدر کیا مجھے پھروائیے گا
کیوں بناوٹ سے اجی روتے ہیں آپ
جھوٹے موتی کسے دکھلائیے گا
جام ساقی سے جو مانگا تو کہا
بھر کے اشک آنکھ میں پی جائیے گا
مصحف رخ کی قسم میں ہے مزہ
ہم سے قرآن یہ اٹھوائیے گا
خط غلامی کا نہیں اے یوسف
خط جو نکلا ہے نہ شرمایئے گا
ہم نے یوسف جو کہا کیوں بگڑے
مول لے گا کوئی بک جائیے گا
حضرت کعبہ جو بن جائیے عرش
دل کی وسعت نہ کبھی پائیے گا
ہم بھی آ نکلیں گے مسجد میں وزیرؔ
خشت خم لے کے جو بنوائیے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |