سر ملا ہے عشق کا سودا سمانے کے لئے
Appearance
سر ملا ہے عشق کا سودا سمانے کے لئے
آنکھیں دیں انسان کو آنسو بہانے کے لئے
اس کا ہنسنا یاد آتا ہے رلانے کے لئے
کچھ بہانہ چاہئے آنسو بہانے کے لئے
کوئی زاہد بن گیا ہے کوئی واعظ بن گیا
کیسے کیسے سوانگ ہیں روٹی کمانے کے لئے
نقد دل کو وارتے ہیں ہم لب پاں خوردہ پر
نذر لائے ہیں تمہارے پان کھانے کے لئے
مجھ پہ ہے چشم عتاب اوروں پہ شفقت کی نظر
مجھ کو عزرائیل عیسیٰ ہو زمانے کے لئے
کعبۂ امید کی تعظیم واجب تھی ضرور
ہم نے بوسے سحرؔ اس کے آستانے کے لئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |