Jump to content

سفید جھوٹ

From Wikisource
سفید جھوٹ (1948)
by سعادت حسن منٹو
319911سفید جھوٹ1948سعادت حسن منٹو

ماہوار رسالہ’’ادب لطیف‘‘ لاہور کے سالنامہ 1942 میں میرا ایک افسانہ بعنوان ’’کالی شلوار‘‘ شائع ہوا تھا جسے کچھ لو گ فحش سمجھتے ہیں میں ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ایک مضمون لکھ رہا ہوں۔

افسانہ نگاری میرا پیشہ ہے، میں اس کے تمام آداب سے واقف ہوں۔ اس سے پیشتر اس موضوع پر میں کئی افسانے لکھ چکا ہوں۔ ان میں سے کوئی بھی فحش نہیں۔ میں آئندہ بھی اس موضوع پر افسانے لکھوں گا جو فحش نہیں ہوں گے۔ قصّہ گوئی ہبوط آدم سے جاری ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ قیامت تک جاری رہے گی۔ اس کی شکلیں بدلتی جائیں گی۔ لیکن انسان اپنے احساسات دوسرے اذہان تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ بیسواؤں پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ ہر اس شے کے متعلق لکھا یا کہا جاتا ہے جو سامنے موجود ہو۔ بیسوائیں اب سے نہیں ہزارہا سال سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کا تذکرہ الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب چونکہ کسی الہامی کتاب یا کسی پیغمبر کی گنجائش نہیں رہی، اس لئے موجودہ زمانے میں ان کا ذکر آپ آیات میں نہیں بلکہ ان اخباروں، کتابوں یا رسالوں میں دیکھتے ہیں جنہیں آپ عود اور لوبان جلائے بغیر پڑھ سکتے ہیں اور پڑھنے کے بعد ردی میں بھی اٹھوا سکتے ہیں۔

میں ایک ایسا انسان ہوں جو ایسے رسالوں اور ایسی کتابوں میں لکھتا ہوں اور اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے کچھ کہنا ہوتا ہے۔ میں جو کچھ دیکھتا ہوں، جس نظر اور جس زاویے سے دیکھتا ہوں، وہی نظر، وہی زاویہ میں دوسروں کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ اگر تمام لکھنے والے پاگل تھے تو آپ میرا شمار بھی ان پاگلوں میں کر سکتے ہیں۔ ’’کالی شلوار‘‘ کا پس منظر ایک ویشیا کا گھر ہے۔ یہ گھر بئے کے گھر کی طرح حیرت انگیز نہیں، جس کے متعلق عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں۔ دہلی میں ایسی عورتوں کے لیے ایک مقام منتخب کر کے بےشمار گھر بنائے گئے ہیں۔ میری سلطانہ ایسے ہی ایک بنے بنائے گھر میں رہتی تھی۔ اس نے بئے کی طرح یہ گھر خود نہیں بنایا تھا، وہ بئے کی طرح رات کو جگنو پکڑ پکڑ کر اپنا گھر روشن نہیں کرتی تھی۔ روشنی پیدا کرنے کے لیے بجلی موجود تھی۔ اور چونکہ یہ بجلی مفت نہیں مل سکتی اور نہ رہنے کے لیے مکان ہی کرائے کے بغیر مل سکتا ہے، اس لیے اسے مزدوری کرنا پڑتی تھی۔

وہ اگر بیاہی ہو تی تو اسے یہ سب چیزیں مفت میں مل جاتیں۔ لیکن وہ بیاہی نہیں تھی۔ وہ ایک عورت تھی۔۔۔ اور جب عورت کو بجلی کے پیسے دینے پڑیں، گھر کا کرایہ ادا کرنا پڑے اور جس کے پلّے خدا بخش سا آدمی پڑ جائے، جو خدا پر بھروسہ رکھے اور فقیر کے پیچھے مارا مارا پھرے تو ظاہر ہے کہ وہ ایسی عورت نہیں ہو گی جو ہم اپنے گھروں میں دیکھتے ہیں۔ میری سلطانہ چکلے کی ایک عورت ہے۔ اس کا پیشہ وہی ہے جو چکلے کی عورتوں کا ہوتا ہے۔ چکلے کی عورتوں کو کون نہیں جانتا۔ قریب قریب ہر شہر میں ایک چکلہ موجود ہے۔ بدرو اور موری کو کو ن نہیں جانتا۔ ہر شہر میں بدروئیں اور موریاں موجود ہیں جو شہر کی گندگی باہر لے جاتی ہیں۔

ہم اگر اپنے مرمریں غسل خانوں میں باتیں کر سکتے ہیں، اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریوں اور بدروؤں کا ذکر کیو ں نہیں کر سکتے، جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ کانو ں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ اگر ہم افیون، چرس، بھنگ اور شراب کے ٹھیکو ں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان کوٹھو ں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعمال کیا جاتا ہے؟

بھنگیوں سے چھوت چھات کی جاتی ہے۔ اگر کوئی بھنگی ہمارے گھر سے گندگی کا ٹوکرا اٹھا کر باہر نکلے تو ہم اپنی ناک پر رومال ضرور رکھ لیں گے۔ ہمیں گھن بھی آئے گی مگر ہم بھنگیو ں کے وجود سے تو منکر نہیں ہو سکتے۔ اس فضلے سے تو انکار نہیں کر سکتے جو ہر روز ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ قبض، پیچش، اسہال وغیرہ دور کرنے کے لیے دوائیں اسی لیے موجود ہیں کہ ہمارے جسم سے فاسد مادے کا اخراج ضروری ہے۔ گندگی کے نکاس کے لیے نت نئے طریقے سوچے جاتے ہیں، اس لیے کہ گندگی ہر روز جمع ہو جاتی ہے۔ اگر ہمارے جسم میں ایک انقلاب برپا ہو جائے اور اس کے افعال بدل جائیں تو ہم قبض، پیچش اور اسہال کی باتیں نہیں کریں گے۔ یا اگر گندگی کے نکاس کے لیے کوئی مکانکی طریقہ ایجاد ہو جائے تو بھنگیوں کا وجود باقی نہ رہے گا۔

ہم اگر بھنگیوں کے متعلق بات کریں تو یقیناً کوڑے کرکٹ اور گندگی کا ذکر آئے گا۔ اگر ہم ویشیاؤں کے متعلق بات کریں تو یقیناً ان کے پیشے کا بھی ذکر آئے گا۔ ویشیا کے کوٹھے پر ہم نماز یا درود پڑھنے نہیں جاتے ہیں۔ وہاں جس غرض سے ہم جاتے ہیں ظاہر ہے۔ وہاں ہم اس لیے جاتے ہیں کہ وہاں ہم جا سکتے ہیں۔ وہاں جا کر ہم اپنی مطلوبہ جنس بے روک ٹوک خرید سکتے ہیں۔ جب وہاں جانے کی ہمیں کھلی اجازت ہے۔ جب ہر عورت اپنی مرضی سے ویشیا بن سکتی ہے اور ایک لائسنس لے کر جسم فروشی شروع کر سکتی ہے، جب یہ تجارت قانوناََ جائز تسلیم کی جاتی ہے تو اس کے متعلق ہم کیوں بات چیت نہیں کر سکتے؟ اگر ویشیا کا ذکر فحش ہے تو اس کا وجود بھی فحش ہے۔ اگر اس کا ذکر ممنوع ہے تو اس کا پیشہ بھی ممنوع ہونا چاہئے۔ اس کا ذکر خود بخود مٹ جائے گا۔

ہم وکیلوں کے متعلق کھلے بندوں بات کر سکتے ہیں۔ ہم نائیوں، دھوبیوں، کنجڑوں اور بھٹیاروں کے متعلق بات چیت کر سکتے ہیں۔ ہم چوروں، اچکوں، ٹھگوں اور راہ زنوں کے قصے سنا سکتے ہیں۔ ہم جنوں اور پریوں کی داستانیں بیٹھ کر گڑھ سکتے ہیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک بیل اپنے سینگوں پر ساری دنیا اٹھائے ہوئے ہے۔ ہم داستانِ امیر حمزہ اور قصہ طوطا مینا تصنیف کر سکتے ہیں۔ لندھور پہلوان کے گرز کی تعریف کر سکتے ہیں۔ ہمعمر و عیار کی ٹوپی اور زنبیل کی باتیں کر سکتے ہیں، ہم ان طوطوں اور میناؤں کہ قصے سنا سکتے ہیں جو ہر زبان میں باتیں کرتے تھے۔ ہم جادوگروں کے منتروں اوران کے توڑ کی باتیں کر سکتے ہیں، ہم عمل، ہمزاد اور کیمیاگری کے متعلق جو من میں آئے کہہ سکتے ہیں۔ ہم داڑھیوں، پائجاموں اور سر کے بالوں کی لمبا ئی پر لڑجھگڑ سکتے ہیں۔ ہم روغن جوش، پلاؤ اور قورمہ بنانے کی نئی نئی ترکیبیں سوچ سکتے ہیں۔ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ سبز رنگ کے کپڑے پر کس رنگ اور کس قسم کے بٹن سجیں گے۔۔۔ ہم ویشا کے متعلق کیوں نہیں سوچ سکتے۔ اس کے پیشے کے بارے میں کیوں غور نہیں کر سکتے۔ ان لوگوں کے متعلق کیوں کچھ نہیں کہہ سکتے جو اس کے پاس جاتے ہیں۔

ہم ایک نوجوان لڑکی اور ایک نوجوان لڑکے کا باہمی رشتہ معاشقہ کرا سکتے ہیں۔ ان کی پہلی ملاقات داتاگنج بخش کے مزار میں کرا سکتے ہیں۔ ایک دلاّل بڑھیا بیچ میں لا سکتے ہیں، جوان دو بچھڑی روحو ں کو باربار ملاتی رہے۔ ہم آخر میں ان کے عشق کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ دونو ں کو زہر پلوا سکتے ہیں۔ ان دونوں کے جنازے، ایک اس محلے سے اور ایک اس محلے سے نکلوا سکتے ہیں، پھر ان دونوں کی قبریں ایک معجزے کے ذریعے ایک دوسرے سے ملوا سکتے ہیں۔ اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اوپر سے فرشتوں کے ہاتھوں سے پھولوں کی بارش بھی کروا سکتے ہیں۔۔۔ ہم ویشیا کی زندگی کیوں بیان نہیں کر سکتے۔ اسے تو فرشتوں اور ان پھولوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اگر مرتی ہے تو دوسرے محلے سے کوئی جنازہ اس کی موت کا ساتھ نہیں دیتا۔ کو ئی قبر اس کی قبر سے ملنے کی خواہش نہیں کرتی۔

ویشیا کا وجود خود ایک جنازہ ہے جو سماج خود اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔ یہ لاش گلی سڑی سہی، بدبودار سہی، متعفن سہی، بھیانک سہی، گھناونی سہی، لیکن اس کا منہ دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔۔۔ کیا یہ ہماری کچھ نہیں لگتی۔ کیا ہم اس کے عزیز و اقارب نہیں۔ ہم کبھی کبھی کفن ہٹا کر اس کا منہ دیکھتے رہیں گے اور دوسروں کو دکھاتے رہیں گے۔

میں نے ’’کالی شکوار‘‘ میں ایسی لاش کا منہ دکھایا ہے۔ ملاحظہ ہو، ’’سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا۔ جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گا نٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال و اسباب کے ڈھیرلگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی، جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹریوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں، کبھی ادِھر بھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک پھک پھک سدا گو نجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکنی میں آتی تو ایک عجیب سماں اسے نظر آتا۔

دھندلکے میں انجنوں کے منہ میں سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ اٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو، اکیلے پٹریوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹری پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور خود بخود جا رہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے۔ نہ جانے کہاں۔ پھر ایک دن ایسا آئے گا، جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالانہ ہوگا۔

ذہین پڑھنے والوں کے لئے اس سے اچھے اشارے اور کیا ہو سکتے ہیں۔ سلطانہ کی زندگی کا اصل نقشہ ان اشاروں اور کنایو ں سے میں نے پیش کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ دہلی کی میونسپلٹی نے دہلی کی ویشیاؤں کے لئے ایک خاص جگہ مقرر کرتے وقت یہ نہ سوچا ہوگا کہ مال گودام ان کی زندگی کا اصل نقشہ پیش کرتا ہے لیکن جو صاحب نظر ہیں وہ مکانوں اور مال گودام کو دیکھ کر ’’کالی شلوار‘‘ جیسے کئی افسانے لکھیں گے۔ اسی لاش کا ایک بار میں نے یوں بھی منہ دکھایا تھا۔ میں اپنے مشہور افسانے ’’ہتک‘‘ کا آغاز ان سطور سے کرتا ہوں،

’’دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارتی تھی، ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں نچوڑ کر شراب کے نشے میں چور، گھر کو واپس گیا تھا۔ وہ رات یہیں ٹھیرتا، پر اسے اپنی دھرم پتنی کا بہت خیال تھا جو اس سے بے حد پریم کرتی تھی۔

وہ روپے جو اس نے اپنی جسمانی مشقت کے بدلے اس داروغے سے وصول کیے تھے، اس کی چست تھوک بھری چولی سے نیچے سے اوپر کو ابھرے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی سانس کے اتار چڑھاؤ سے چاندی کے یہ سکے کھنکھنانے لگتے اور ان کی کھنکھناہت اس کی دل کی غیر آہنگ دھڑکنوں میں گھل مل جاتی۔ اور ایسا معلوم ہو تاکہ ان سکوں کی چاندی پگھل کر اس کے دل کے خون میں ٹپک رہی ہے۔ اس کا سینا اندر سے تپ رہا تھا۔ یہ گرمی کچھ تو اس برانڈی کا باعث تھی جس کا ادّھا داروغہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ اور کچھ اس ’’بیوڑا‘‘ کا نتیجہ تھی، جس کو سوڈا ختم ہونے پر دونوں نے پانی ملا کر پیا۔

وہ ساگوان کے لمبے چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ اس کی باہیں جو کا ندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی اس کانپ کی طرح پیلی تھیں جو رات اوس میں بھیگ جا نے کے باعث پتلے کاغذ سے جدا ہو جائے۔ دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت ابھرا ہوا تھا جو باربار مونڈنے کے باعث سیاہی مائل رنگت اختیار کر گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑہ وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔‘‘

یہ سلطانہ کی ایک بہن سوگندھی کی تصویر ہے۔ اس کے پاس خدا بخش کے بجائے ایک خارش زدہ کتا تھا۔ خدا بخش سلطانہ کا دل نہ بہلا سکا مگر یہ خارش زدہ کتا سوگندھی کے بہت کام آیا۔ میں اس افسانے کی آخر میں لکھتا ہوں،

’’کُتا اپنی ٹنڈمنڈ دم ہلاتا سوگندھی کے پاس واپس آیا اور اس کے قدموں کے پاس بیٹھ کے کان پھڑ پھڑانے لگا۔ سوگندھی چونکی۔ اس نے اپنے چاروں طرف ایک ہولناک سناٹا دیکھا۔ ایسا سناٹا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر شے خالی ہے جیسے مسافرو ں سے لدی ہوئی ریل گاڑی سب اسٹیشنو ں پر مسافر اتار کر اب لو ہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے۔ یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہو گیا تھا، اسے بہت تکلیف دے رہا تھا۔ اس نے کافی دیر تک اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ وہ ایک ہی وقت میں بے شمار خیالات اپنے دماغ میں ٹھونستی تھی۔ مگر بالکل چھلنی کا سا حساب تھا۔ ادھر وہ دماغ کو پر کرتی تھی ادھر وہ خالی ہو جاتا تھا۔ بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اس کو اپنا دل پَرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اس نے اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اسے اپنے پہلو میں لٹا کر سوگئی۔‘‘

کون ہے جو یہ تصویریں دیکھ کر لذّت حاصل کرنے کے واسطے ان ویشاؤں کے کوٹھے پر جائے گا۔ میری سلطانہ اور میری سوگندھی تنہائی میں دیکھنے والی تصویریں نہیں ہیں جن کے اشتہار آئے دن اخباروں میں چھپتے رہتے ہیں۔ وہ کوئی نیا جوڑدار آسن پیش نہیں کرتیں، وہ امساک کا کوئی خاندانی نسخہ نہیں بتاتیں، وہ کو ئی لچھے دار آپ بیتی نہیں سناتیں کہ شہوانی جذبات ابھر آئیں۔

میرا زیرِ بحث افسانہ’’کالی شلوار‘‘ اگر آپ غور سے پڑھیں تو ذیل کی با تیں آپ کے ذہن میں آئیں گی۔

۱۔ سلطانہ ایک معمولی ویشیا ہے۔ پہلے انبالے میں پیشہ کراتی تھی، بعد میں اپنے دوست خدا بخش کے کہنے پر دہلی چلی آئی۔ یہاں اس کا کاروبار نہ چلا۔

۲۔ خدا بخش خدا پر بھروسہ کرنے اور فقیروں کی کرامات پر ایمان لانے والا آدمی تھا۔

۳۔ سلطانہ کا جب کاروبار نہ چلا تو وہ بہت افسردہ ہوئی۔ اس کی افسردگی میں اور اضافہ ہو گیا جب خدا بخش فقیروں کے پیچھے مارا مارا پھرنے لگا۔

۴۔ محرم سر پر آگیا۔ سلطانہ کی دوسری سہیلیو ں نے کالے کپڑے بنوا لئے مگر وہ نہ بنوا سکی۔ اس لیے کہ اس کے پا س کچھ نہیں تھا۔

۵۔ اس مو قع پر شنکر آتا ہے۔ ایک آوارہ گرد۔ ذہانت، حاضر جوابی اور خوش گفتاری کے علاوہ اس کے پاس بھی کچھ نہیں۔ وہ سلطانہ کے پاس آتا ہے اور اپنی ان خوبیو ں کے معاوضے میں اس سے وہ جنس طلب کرتا ہے جسے وہ دام لے کر فروخت کرتی ہے۔ سلطانہ یہ سودا قبول نہیں کرتی۔

۶۔ دوسری مرتبہ شنکر خود نہیں آتا بلکہ اداس سلطانہ اسے خود بلاتی ہے اور اسے اپنے ٹھیرے پانی جیسی زندگی میں ایک حا دثے کی طرح قبول کر لیتی ہے۔ اس سے مل کر وہ خوش ہوتی ہے مگر یہ احساس اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا کہ محرم کے لئے اس کے پاس ایک کالی شلوار کی کمی ہے۔ وہ شنکر سے کہتی ہے، ’’محرم آ رہا ہے میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیص اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لئے دے دیا ہے۔‘‘

۷۔ شنکر محرم کی پہلی تاریخ کو سلطانہ کے لئے ایک کالی شلوار لے آتا ہے۔۔۔ خدا بخش کا خدا اور خدا رسیدہ بزرگوں پر اعتقاد کام نہیں آتا لیکن شنکر کی ذہانت کام آتی ہے۔

یہ افسانہ پڑھ کر دل و دماغ پر کیا اثر ہوتا ہے؟ کیا اس کا پلاٹ یا اس کا اندازِ بیان لوگوں کو ویشیا کی طرف کھینچتا ہے؟ میں اس کے جواب میں کہوں گا ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ اس مقصد کے لئے نہیں لکھا گیا۔ اگر اس کو پڑھ کر ایسا اثر پیدا نہیں ہوتا تو یہ افسانہ اخلاقیا ت سے گرا ہوا نہیں ہے، اگر یہ اخلاقیات سے گرا ہوا نہیں تو یہ افسانہ ایسا گیت نہیں جسے حظ اٹھانے کی خاطر لوگ گائیں اور باربار گائیں۔ کوئی گراموفون کمپنی اس کے ریکارڈ نہیں بھرے گی۔ اس لئے کہ اس میں جذبات ابھارنے والے دادرے اور ٹھمریاں نہیں ہیں۔ ’’کالی شلوار‘‘ جیسے افسانے تفریح کی خاطر نہیں لکھے جاتے۔ ان کو پڑھ کر شہوانی جذبات کی دال نہیں ٹپکنے لگتی۔۔۔ اس کو لکھ کے میں کوئی شرمناک فعل کا مرتکب نہیں ہوا۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس کا مصنفٖ ہوں۔ میں شکر کرتا ہوں کہ میں نے کوئی ایسی مثنوی نہیں لکھی، جس کے اشعار میں آپ کی خدمت میں نمونے کے طور پر پیش کرتا ہوں۔

ہاتھا پائی سے ہانپتے جانا
کھلتے جانے میں ڈھانپتے جانا

وہ ترا منہ سے منہ بھڑا دینا
وہ ترا جیب کا لڑا دینا

وہ ترا پیار سے لپٹ جانا
اور دل کھول کے چمٹ جانا

ہولے ہولے پکارنے لگنا
ڈھیلے ہاتھوں سے مارنے لگنا

منہ سے کچھ کچھ پڑے بکے جانا
چھوٹ جانے کے گوں تکے جانا

تھک کے کہنا خدا کے واسطے چھوڑ
نیند آئی ہے اب مجھے نہ جھنجوڑ

وہ ترا ڈھیلے چھوڑنا بے بس
وہ ترا سست ہو کے کہنا بس

بات باقی نہیں رہی اب تو
رات باقی نہیں رہی اب تو

کہیں تیری یہ بات نبڑے گی
یا یونہی ساری رات نبڑے گی

مجھ میں باقی کچھ اب تو بات نہیں
صبح بھی ہو چکی ہے رات نہیں

دیکھ اب آگے مار بیٹھوں گی
یا کسو کو پکار بیٹھوں گی

آدمی کی جو ریخ نکلے گی
منہ سے کیونکر نہ چیخ نکلے گی

کبھو پھر بھی تو کام ہو وے گا
دیکھیو کون ساتھ سووے گا

(اقتباسات از مثنوی میر درد مطبوعہ انجمن ترقی اردو)

شکر ہے کہ میں نے اپنی پیاس اور بھوکی خواہشاتِ نفسانی کو پرچانے کے لیے ایسے اشعار نہیں لکھے۔

لب سے لب مرے ملائے رکھنا
بازو سے وہ سر اٹھائے رکھنا

وہ سینے پہ لیٹ کے ستانا
مطلب کہ سخن پہ روٹھ جانا

وہ منہ میں زبان کی لذتیں ہائے
ظاہر حرکت سے رغبتیں ہائے

اپنا جو ہوا کچھ اور ارادہ
جی چاہا کہ اس سے بھی زیادہ

وہ ہاتھ کو رکھ کے جوش انکار
وا کرنے نہ دینا بندِ شلوار

وہ ہاتھ کو دم بدم جھٹکنا
وہ تکئے پر سر کو دے پٹکنا

آہستہ لگانی آہ لاتیں
حیلہ کی وہ کیسی کیسی باتیں

وہ ہا تھ کو زور سے چھڑانا
وہ ہو کے تنگ کاٹ کھانا

وہ نیچے پڑے ہی تلملانا
قابو سے تڑپ کے نکلے جانا

وہ چیں بجبیں ہو کے کہنا
کن بے کسوں سے رو کے کہنا

بس تم کو یہی شغل دن رات
اچھی نہیں لگتی مجھ کو یہ بات

بھرتا ہی نہیں ہے تیرا جی بس
کرتا ہی نہیں ہے تو کبھی بس

(کلیات مومن۔۔۔ مثنوی دوئم۔۔۔ مطبوعہ نو ل کشور لکھنؤ)

عورت اور مرد کے جنسی رشتے کے متعلق اگر اس انداز میں کچھ کہا جا ئے تو اسے معیوب سمجھوں گا، اس لئے کہ یہ ہر بالغ شخص کو معلوم ہے۔ تنہائی میں جب مرد اور عورت ایک بستر پر اس غرض سے لیٹتے ہیں تو اسی قسم کی حیوانی حرکات کرتے ہیں، لیکن وہ ایسی خوبصورت نہیں ہوتیں جیسا کہ ان اشعار میں ظاہر کی گئی ہیں۔ ان کی حیوانیت کو شاعری کے پردے میں چھپا دیا گیا۔ یہ لکھنے والے کی شرارت ہے، جو یقینا قابل گرفت ہے۔ اگر مرد اور عورت کے اس حیوانی فعل کی فلم بنا کر پردے پر پیش کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ اس کو دیکھ کر تمام سلیم الدماغ آدمی نفرت سے منہ پھر لیں گے۔ لیکن جو اشعار میں نے اوپر نمونے کے طور پر پیش کئے ہیں، وہ اس حیوانی فعل کی ایک غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔

ایسی شاعری’’دماغی جلق‘‘ ہے۔ لکھنے والوں اور پڑھنے والوں دونوں کے لئے اسے میں معیوب سمجھتا ہوں۔ میرے افسانے ’’کالی شلوار‘‘ میں ایسا کوئی عیب نہیں۔ میں نے اس میں کہیں بھی مرد اور عورت کے جنسی ملاپ کو لذیذ انداز میں پیش نہیں کیا۔ میری سلطانہ سے جو اپنے گاہک گوروں کو اپنی زبان میں گالیاں دیا کرتی تھی، اور ان کو الو کے پٹھے سمجھتی تھی، کس قسم کی لذت یا کس قسم کے حظ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ وہ ایک دکاندار تھی، ٹھیٹ قسم کی دکاندار۔ اگر ہم شراب کی دکان پر شراب کی بوتلیں لینے جائیں تو یہ توقع نہیں کریں گے کہ وہ عمر خیام بنا بیٹھا ہوگا۔ یا اس کو حافظ کا سارا دیوان ازبر یاد ہوگا۔ شراب کے ٹھیکے دار شربت بیچتے ہیں، عمر خیام کی رباعیاں اورحافط شیرازی کے شعر نہیں بیچتے۔

میری سلطانہ عورت بعد میں ہے، ویشیا سب سے پہلے ہے کیونکہ انسان کی زندگی میں اس کا پیٹ سب سے زیادہ اہم ہے۔ شنکر اس سے پو چھتا ہے، ’’تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہوگی؟‘‘ سلطانہ جواب دیتی ہے، ’’جھک مارتی ہوں۔۔۔‘‘ وہ یہ نہیں کہتی کہ میں گندم کا بیوپار کرتی ہوں یا سونے چاندی کی تجارت کرتی ہوں، اسے معلوم ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔ اگر کسی ٹائپسٹ سے پوچھا جائے کہ تم کیا کام کرتے ہو تو وہ یہی جواب دے گا، ’’ٹائپ کرتا ہوں۔‘‘ میری سلطانہ اور ایک ٹائپسٹ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.