Jump to content

سلک گوہر

From Wikisource

میر انشاء اللہ خاں دہلوی (متوفی 1233؁ھ – 1818؁ء) اردو زبان کے مایۂ ناز ادیب ہیں۔اُن کے دماغ میں جتنی ہمہ گیری تھی، ہندوستانی شعرا اور ادیبوں میں اس کی مثال بمشکل ہی مل سکے گی۔ عربی، فارسی، ترکی، پشتو، اردو، ہندی، پوربی، بنگلہ، پنجابی، کشمیری سب میں کہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ خوب کہا ہے۔ پھر ہر زبان کی نثر پر بھی قدرت رکھتے تھے اور نظم پر بھی۔ بے نقط کے بھی استاد بھے اور بول چال میں بھی اہل زبان جیسی مہارت حاصل تھی۔

صاحبِ قلم ہوتے ہوئے صاحب سیف بھی تھے۔ محمد بیگ خاں ہمدانی کے ساتھ متعدد جنگی معرکوں میں شریک ہو کر داد شجاعت دی۔ ایک بار جے نگر میں ہمدانی کے بھتیجے مرزا اسمعیل بیگ خاں سے کسی بات پر بگڑ بیٹھے۔ بیچارے کو جان چھڑانا مشکل ہو گئی تھی۔ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر معاملہ سلجھایا، ورنہ یہ تو کٹار لےکر جھپٹ ہی پڑے تھے۔

شجاعت کے ساتھ خوش بیانی اور ظرافت کے بھی پتلے تھے۔ جہاں بیٹھ جاتے، باتوں کے باغ لگاتے اور چٹکلوں کے گل کھلاتے۔ بات میں بات ایسی پیدا کر دیتے کہ سننے والے عش عش کر اُٹھتے۔ جو ہتھے چڑھ جاتا، چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، اُسے چھیڑتے اور بدقسمتی سے چڑھ جاتا تو چھیڑ چھیڑ کر پاگل بنا دیتے۔

ہنسی دل لگی کے ساتھ رکھ رکھاؤ بھی غضب کا تھا۔ بڑے بڑے آدمیوں کو بھی خلاف مزاج بات نہ کہنے دیتے۔ ایک دن نواب سالار جنگ کے بیٹے مرزا قاسم علی خاں کسی شعر میں ان سے اُلجھ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نواب سعادت علی خاں کے روبرو انھیں قائل ہونا پڑا۔

ذکاوت اور طباعی میں طاق تھے۔ غزلوں اور قصائد کی نت نئی زمینیں نکالتے اور اشعار میں اچھوتے مضمون باندھنے کی کوشش کرتے تھے۔ 16 برس کی عمر میں نواب شجاع الدولہ کی صحبت میں داخل ہوئے اور مرتے دم تک کبھی نواب نجف خاں کے لشکر میں رہے، کبھی بندیل کھنڈ میں جا براجے؛ ابھی میرزا سلیمان شکوہ بہادر کے ندیم تھے، وہاں سے اُٹھ کر الماس علی خاں خواجہ سرا کے ہم جلسہ بن بیٹھے؛ آخر میں نواب سعادت علی خاں بہادر کے زیر سایہ مزے اُڑائے اور اُن کی رات دن کی صحبتوں کا کھلونا بنے رہے۔ مگر اس جہاں گردی اور ہرجائی پن کے باوجود تصنیف و تالیف کا شغل برابر جاری رکھا اور سچی بات یہ ہے کہ اپنی طبیعت کے جوہر یہاں بھی خوب خوب دکھائے۔

ان کی تصنیفات میں سے کلیات نظم، دریائے لطافت اور رانی کیتکی کی کہانی مشہور ہیں اور چھپ کر شائع بھی ہو چکی ہیں۔ مخزن الغرائب (ورق 60 ب) میں چند سورتوں کی بے نقط تفسیر کا بھی حوالہ ملتا ہے، مگر یہ کتاب کہیں نظر سے نہیں گذری۔ کتابخانہ عالیہ رامپور میں ان کی دو اور کتابیں محفوظ ہیں جن کے نسخے کسی دوسری جگہ نہیں پائے جاتے۔

(١) پہلی کتاب، انشا کے ترکی روزنامچے کے چند اوراق ہیں جن میں پنجشنبہ 18؍ جمادی الاولی 1223؁ھ (12؍ جولائی 1808؁ء) سے جمعہ 25؍ جمادی الآخرہ سال مذکور (18؍ اگست سال مذکور) تک کے روزمرہ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت دلچسپ اور مفید ہیں۔ مثلاً:

1) یکشنبہ 5 جمادی الآخرہ کو نواب سعادت علی خاں بہادر کے حضور میں تصاویر کا ایک مرقع پیش ہوا۔ کسی تصویر کے سر پر بے ڈھنگی سی پگڑی تھی۔ آفرین علی خاں اُسے دیکھ کر بول اُٹھے کہ یہ تو پگڑی نہیں، فراسیس کی ٹوپی ہے۔

انشا لکھتے ہیں کہ میں نے آہستہ آہستہ یہ پڑھا: “پگڑی تو نہیں، ہے یہ فراسیس کی ٹوپی”۔ حضور نے سن لیا اور فرمایا “صاحب، چلّا کے کیوں نہیں پڑھتے؟ دیکھو، میاں آفرین علی خاں، تم پر یہ مصرع ہوا ہے۔”

اُنھوں نےکہا “پیر و مرشد ، کیسا مصرع؟”

فرمایا : “ہم کیا جانیں؟ انھوں نے کہا ہے:

پگڑی تو نہیں، ہے یہ فراسیس کی ٹوپی

میں نے کہا “یہ عجیب زمین نکلی! حضور کی زبان سے ارشاد ہوا ہے، غلام کو ان سے کیوں پھنساتے ہیں؟ اکثر ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ کہنے والے کا مقصد نہیں اور بات موزوں ہو جاتی ہے۔”([1])

اس اندراج سے انشا کی ایک مشہور غزل کی صحیح شان نظم کا پتا چل جاتا ہے، جو کلیات کے بیان سے قدرے مختلف ہے۔

سہ شنبہ 7 ماہ مذکور کے تحت لکھا ہے کہ جناب عالی کے صاحبزادے حسین علی خاں بہادر کی فرمائش پر میں نے یہ ٹھیٹ ہندوستانی جملہ بولا: “پرانے دھرانے ڈاگ، بوڑھے گھاگ، سر ہلا کر، منہ تھتھا کر، ناک بھوں چڑھا کر یہ کھڑاگ لاے۔”

یہ جملہ قدرے تغیر کے ساتھ رانی کیتکی کی کہانی میں موجود ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ مذکورہ کہانی 7 جمادی الآخرہ 1223؁ھ (1808؁ء) کے بعد لکھی گئی تھی۔

اگر اس روزنامچے کا مکمل نسخہ دستیاب ہو جائے تو انشا اور دربارِ اودھ کے متعلق بہت سے مفید باتیں ہمارے علم میں آ سکیں گی۔

2) دوسری کتاب “سلک گوہر” ہے، جو اس وقت آپ کے سامنے موجود ہے۔ یہ ایک مختصر کہانی ہے جسے اپنی طبیعت کی اپج دکھانے کے لیے انشا نے بے نقط اردو میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔

جہاں تک لطفِ زبان کا تعلق ہے، انشا کا قلم وہ گلکاریاں دکھانے میں بالکل ناکام رہا ہے، جو اُس کی دوسری کتابوں میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انشا نے یہ کوئی انوکھی کوشش کی تھی۔ اُس سے پہلے، علاوہ چھوٹی چھوٹی عبارتوں یا خطوط کے، ملک الشعرای ہند فیضی کی دو کتابیں “موارد الکلم” اور “سواطع الالہام” نثر عربی میں اور “دیوانِ مادح” نظم فارسی میں موجود اور مشہور و مقبول ہو چکی تھیں۔ خود انشا ہی نے ایک بے نقط قصیدہ، ایک بے نقط دیوان اور ایک بے نقط فارسی مثنوی “طور الاسرار” کے نام سے 1214؁ھ (1799؁ء) میں تالیف کی تھی۔ چنانچہ اس کا ایک شعر “سلک گوہر” کے دیباچے میں نواب سعادت علی خاں بہادر کی مدح کرتے ہوئے نقل بھی کیا ہے۔

دراصل اس بے لطفی کی وجہ یہ ہے کہ عام اردو بول چال کا سرمایۂ الفاظ انشا کے عہد میں یونہی کم تھا، اُس پر طرہ یہ ہوا کہ ہندی کے وہ سب لفظ جن میں ٹ، ڈ یا ڑ پائی جاتی ہے، اس بنا پر چھوڑنا پڑے کہ اُس زمانے میں ان پر چھوٹی سی “ط” لکھنے کی جگہ چار چار نقطے لگائے جاتے تھے۔ اگر موجودہ چلن انشا کے دور میں بھی پایا جاتا تو عبارت کی سانس اتنی نہ گھٹ جاتی۔ اب صرف دو راستے باقی رہتے تھے، پہلا یہ کہ سنسکرت اور ہندی کے بے نقط الفاظ زیادہ کھپائے جائیں اور دوسرا یہ کہ عربی و فارسی سے مدد لی جائے۔ چونکہ انشا کے بہت بعد تک ہندو اور مسلمان دونوں اپنی تحریر و تقریر میں سنسکرت اور ہندی کے نامانوس الفاظ سے پرہیز کیا کرتے تھے اور اُن کی جگہ عربی و فارسی کے وہ لفظ بھی لکھ اور بول لیتے تھے جو عام طور پر مستعمل نہ تھے۔ اس لیے انشا نے بھی رواجِ زمانہ کے مطابق عربی و فارسی کے ذخیرۂ الفاظ ہی سے دریوزہ گری کی اور وسعتِ داماں بڑھانے کے لیے عربی کے اُن لفظوں کو بھی الف کے ساتھ لکھ کر غیر منقوط بنا لیا جو الف مقصورہ پر ختم ہوتے اور “ی” کے ساتھ لکھنے میں آتے تھے، مگر اس سے پیاس نہیں بجھا کرتی۔ جن لفظوں اور ترکیبوں سے کان آشنا نہ ہوں، اُن کا مطلب سمجھ بھی لیا جائے، تب بھی لطف حاصل نہیں ہوا کرتا اور یہ نامانوس پن سنسکرت اور ہندی ہی میں نہیں، عربی و فارسی الفاظ میں بھی بے کیفی ہی کا موجب ہوتا ہے۔

اس عیب کو دور کرنے کے لیے انشا نے مطالب و معانی میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ باراتیوں میں مختلف طبقات کی نمائندگی کی غرض و غایت یہی نظر آتی ہے، اور اُن کی ہیئت کذائی، عادات و خصائل اور بول چال کی مصورانہ نقالی اسی کی شاہد عادل ہے۔ مگر اشکال و اغلاق کے بھاری بھر کم پردے اٹھا کر شاہد معنی کا دیدار کیا جائے تو بجائے تسکین کے وحشت اور جھنجھلاہٹ ہی بڑھے گی۔

بہر حال انشا کی یہ کوشش اردو زبان کی تاریخ میں ایک دلچسپ اضافہ کرتی اور اپنے سیٹھے پن کے باوجود مستحقِ ستایش تھی؛ اس لیے کتاب خانۂ رامپور کی طرف سے اسے شائع کیا جا رہا ہے۔

چونکہ اس کتاب کا صرف ایک ہی مخطوطہ دستیاب ہوا اور محققین واقف ہیں کہ ایک قلمی نسخے پر کسی متن کی بنیاد رکھی جائے تو مشتبہ مقامات کا رہ جانا ناگزیر سا ہوا کرتا ہے؛ اس لیے اگر اس چھوٹی سی کتاب میں آپ کو بھی متعدد جگہوں پر ٹھہر جانا پڑے، تو مرتب معذور و معاف خیال کیا جائے۔ اگر کسی اہل ذوق کو اس کا دوسرا مخطوطہ دستیاب ہو تو بعد مقابلہ صحیح الفاظ و فقرات سے مطلع کر کے مرتب کو ممنون فرمایا جائے۔

آخر میں یہ واضح کر دینا مناسب ہوگا کہ زیر نظر مطبوعہ نسخے میں اس کی کوشش کی گئی ہے کہ الفاظ کا وہ املا برقرار رکھا جائے جس میں کسی حرف کے اندر نقطہ داری کا عیب نہ پیدا ہوتا ہو۔ ایسا کرنے میں بعض جگہ بمجبوری نسخے کے کاتب سے اختلاف بھی کرنا پڑا ہے۔ مثلاً اُس نے عربی لفظ “عل” کو کہیں اس طرح اور بعض جگہ “علا” لکھا ہے، پہلی صورت انشا کے مقصد کے خلاف تھی، اس لیے مطبوعہ نسخے میں موخر الذکر کو اختیار کیا گیا ہے۔

کہیں کہیں کاتب نے الفاظ کے املا میں بے ضرورت رد و بدل بھی کر دیا تھا۔ مثلاً ہائے مختفی پر ختم ہونے والے لفظوں کوکبھی الف کے ساتھ بھی تحریر کیا تھا۔ چونکہ ہائے مختفی غیر منقوط حرف ہے، اس بنا پر ایسے الفاظ پوری کتاب میں اصلی املا پر برقرار رکھے گئے ہیں۔

خدا کرے یہ کتاب بھی سلسلۂ مطبوعاتِ کتابخانۂ رامپور کے پچھلے نمبروں کی طرح اہلِ ذوق کو پسند آئے اور اعلیٰ حضرت فرمانروائے رامپور دام اقبالہم و ملکہم کے مبارک عہد میں اور زیادہ مفید اور اہم علمی کام انجام پائیں۔ آمین!


کتابخانہ عالیہ، ریاست رامپور امتیاز علی عرشی

  10 اگست سنہ 1948؁ء                                   ناظم کتاب خانہ



سمرِ ماہ ساطع ملک روس و ملکۂ گوہر آرا در حمد و درود رسول و ولدِعم و آلِ اطہار او،

سلمہُم اللہُ المَلِک السلامُ و کرّمہُم!


عالم عالم حمد، صحرا صحرا درود، اللہ صمد ودود، اور رسولِ کردگار، سر گروہ رُسُل، محمد محمود، اور آلہ الاطہار کو؛ اور سو لاکھ سلام ہر سحر و مسا اُس ماہ مصرِ اسلام، مدار المہام سرکارِ ملک علام، امامِ ہمام، اسد اللہ کو، کہ مع([2]) عساکر و اعلام مدام معرکہ آرا رہا۔ اس حد کو علم کس کا، اور کس کا حوصلہ کہ مرحلہ گرد اُس راہ کا ہو! اللہم صلی علا([3]) محمد و آلہ، و عُلُوہ و کمالہ!

کلامِ مصرع دار

مداد مردمکِ حور و کلک سدرہ کدھر کہ ہو مُسودۂ حمدِ داورِ عالم مدام وردِ درودِ رسول “صلِ علا مُحمد و علا آلہ” کرو ہر دم


اطلاع اسمِ موسسِ کلام، سلمہُ اللہُ مع آلہ و اولادہ

واہ، واہ، او دل آگاہ، او مرادِ کلمہ “لوآراد اللہ”، ہمسرِ املا، ولولہ!([4]) سلسلۂ کلام کو حور آسا اور محاورۂ اردو کو امردِ سادہ رُو کر دکھلا، اور اسم اُس کلام کا “سلکِ گوہر” رکھ اور آ۔

مدحِ حاکم عصر، ادامہُ اللہ

اور اُس حکامِ عصر، مالک الرؤساء و سادہ آرا کو کر دعا، کہ عدل اُس کا مرسوم، اور اسمِ مُعلا اُس کا “لہُ السعادہ” معلوم ہوا۔

کلامِ مصرع دار([5])

اللہ وُرا مراد دادہ اعطا علماً، لہ السعادہ


الٰہا، مدام عالم عالم اُس کا محکوم اور حاسد اُس کا معدوم ہو!

در اساسِ کلام

در عالمِ علوِ حوصلہ، کہ سالہا سال ہم کو سودا سا مطالعۂ احوالِ ملوکِ عالم کا رہا، ملکِ روس اور ملکۂ گوہر آرا کا حال اس طرح معلوم ہوا۔

در گلگدۂ سمر و احوالِ طلوع سحر

ہرگاہ سحر گاہ ماہِ امردِ کم عمرِ سادہ رو، اھلا گہلا رسمسا سا، مسرورِ سکر، مدامِ طہور ۔۔۔۔([6]) مرصع محل کا وارد ہو کر آرام گاہ معہود کو سدھارا۔ اور عروس ہوا کا سلسلہ([7]) ہلا ،اور ہر طرح کا گل، سرد سرد اوس اور سہاگ لہر کھا کر کھلا، اور لمعۂ مہر کا ورود سرِ کوہسارِ طلا کار ہوا۔

وصولِ ملکِ روس در مصور محل

ملکِ روس، راس الرؤسِ ممالک، محروسہ، سوار کار ہما کردارِ صر صر اطوار، ہنراہِ علم و دہل و کوس، مرحلہ گردِ گردا گردِ دورۂ گردِ صحرا، در صدد ارادۂ آہو([8])، رہ گم کردہ، آلودۂ ہراس و وسواس، واردِ حصارِ طلا کارِ سرکارِ ملکہ گوہر آرا ہوا۔ اللہ، اللہ! وہ عہدِ موسمِ گل کا ولولہ([9])، اور سو کوس لالۂ حمرا کھلا، اور وہ اُس مصور محل اور معطر محل کا ارم کا سا عالم!

احوالِ سرا سر ملالِ ملکِ مسطور

حاصل کہ وہ ہمسرِ کسرا و دارا ملکِ مسطور، مصور محل کو گھور گھور، ملکۂ گوہر آرا کا گردۂ رو مصورِ لوحِ مردمک کر کر محو و آرارہ ہوا، اور اُس کو سارا درد و الم گوارا۔ وہ اُس کا احوالِ سراسر ملال اگر سرِ مو محرر ہو، سو معلوم۔مدرکہ، حواس، واہمہ کل معدوم۔ ولولہ اور دھوم دھام، مدام اُس کا کام؛ اور اُس مصور محل کو سو سو سلام، اور ہمراہ دم سرد اس طور کا کلام:

کلامِ مصرع دار([10])

اور کس کا آسرا ہو سرگروہ اس راہ کا؟ آسرا ا للہ اور آلِ رسول اللہ کا


احوالِ اطلاع ملکۂ گوہر آرا و ورودِ ملکِ روس در معطر محل

ملکۂٔ گوہر آرا کا دل اس حال کا مطلع ہوا۔ اُس دم محرمِ اسرار، مہر کردار، ہم عمر، ماہ رو کو کہا کہ “ادھر([11]) آؤ۔ اور اُس کو لاؤ”۔ ہر گاہ مار مہرہ عطاردِ الماس آسا کا لگا، اور محل لسع مارِ مد سما کالا ہوا، اور مداد مردمکِ حورِ ملاءِ اعلا کا مسودہ کھلا، اور وسواس کا کلسرا اُس کا اُگلا ہوا سم کھا کر سو رہا، اور گہوارہ کودکِ ماہِ مراد کا ہلا، ملکِ روس کلاہِ مکلل گوہر و الماس و لعل رکھ کر، اُس صدورِ امر کا مامور ہوا، سہما ہوا مع([12]) ماہ رو واردِ معطر محل ہو کر کراہا۔

اول اول سلسلہ کلام کا اس طرح کھلا۔ ملکۂ گوہر آرا کا سر ہلا کہ “ہاء! راہ و رسمِ معمول و مرسوم سوا اگر سرکار کا اور ارادہ ہو، سو معلوم، الوداع، آرام! اور دھوم دھام کا واسطہ اور سارا رولا کس کام؟ واللہ کہ حد گرما گرم ہو! اس طور کا سراسر آگ اور لاگ لگاؤ والا اور مردو۱ کم ہوا ہو گا۔ اگر سودا ہوا ہو، کالا لہو کم کرواؤ۔ اور اگر ہولِ دل ہو، دواء المسکِ سرد و گرم کھاؤ۔

گوہمسر ماہ مصر ہو ،عامل ملا لگاؤ،کلام اللہ دم کراؤ۔وہ موا سودا در گور کہ سارا گھر کا گھر رسوا ہو۔لو، ہمارا کہا کرو۔سرکو ،راہ لو ،گھر سدھارو،مگر اس مہر کو لو،اور ہر طرح دل کو دلاسا دو۔اور اس کا گل کھاؤ ،لاگ کو آگ لگاؤ، والد اور والدہ کو مطلع کرو۔مہرۂ مہر کو ہلاؤ۔مسودہ اس کام کا ہو ،سو لکھو،لکھاؤ۔مہرکر ، صدر الصدور کو حوالہ کر ارسال کرو۔اگر ہم دگر کو وہ مراسلہ اور معاملہ گوارا ہو،حصول وصل کلام ہوگا ۔والا لا حول ولا۔

ورود ملک روس در کوہ طلا ومکالمۂ طاؤوس ،مرادوملک مسطور

حاصل کہ وہ اداس رک رکاؤکا کلمہ وکلام مسموع کرکر ،ملک روس کا حد سوا دل دکھا ،گولا سا لگا۔ملکۂ گوہر آرا کو وداع کرکر کہا :“اوہ! ہو،سو ہو،ہوا سو ہوا، طالع کا لکھا ہوگا”۔ محروم اور ملول،راکھ دھول سر کو مل دل صر صر آسا صحرا کا رہگرا ہوکر،اس طور دلاسا دہ دل ہوا کہ “لو،مولا،اداسا کسو ، دسا کرو۔اس معطر محل اور گہماگہم کو لوکا آگ کا لگاکر دھدکار دو”۔ مدعا کہ وہ اکلا آلودۂ الم ،دو سال کامل دوا دو، روا رو کر کر سرِ کوہِ طلا آ دھمکا۔ لعل کا گھر ادھر اور الماس کا سہ درہ، اور لوحِ سحر، اور ہد ہد طلسم، اور مرد صد سالہ اُس کو محسوس ہوا۔ وہ سالکِ مسالکِ وداد کامل طاؤس آسا معرکہ سماع و حال کا گرم کر کر کوکا، اور مردِ معمرِ صد سالہ اس صدا کا آگاہ ہو کر للکارا کہ “او وارد راہ، مدعا دل کا کہ، اگر مال و ملک درکار ہو، کمر کھول؛ اور اگر معاملۂ دل ہو، اُس ماہر و کا اسم ہم کو معلوم کروا، سرمۂ طلسم، اور سرکارِ موسا([13]) کا عصا وہ طور والا، اور مدد کا رسا اور کاسہ([14]) امداد ہو گا۔ اُس سرمۂ طلسم کا وہ کام کہ اس کو لگا کر گھر گھر کل کو گھورا کرو، اور دوسرا مطلعِ حال ہو، سو معلوم؛ اور عصا وہ عصا کہ گاہ مار گاہ دوحہ کردار ہو؛ اور رسا وہ رسا کہ ہر ماہ رو کو کس لو؛ اور کاسہ وہ کاسہ([15]) کہ ہر طرح کاطعام کھاؤ، کھلاؤ، دو، لو، اُس کا طعام کد کم ہو”۔

ملکِ روس اس صدا کا سامع ہو کر کھلا، اور کہا، کہ “اسم اس گدا کا ماہ ساطع ولد مہر طالع ملکِ روس، اور علم اُس ماہرو کا کہ دل اُس کا والہ ہوا، ملکۂ گوہر آرا سرکار کا سامعہ آرا ہوا ہو گا۔ واللہ! کہ دوسرا اُس سا ہو، سو اصلا۔

محامدِ اوصالِ([16]) ملکۂٔ گوہر آرا

اُس حورِ ارم کا وہ عالم، اور آس مراد کا موسم کہ اللہ، اللہ! کمر، کولا اور ادا، واہ ، واہ، واہ! ممدوحۂ سما و سمک، کاکل دودِ آہ ملک، دمک طلا کار، مہر کردار، دلک ماہ اطوار، وہ لوحِ طالع مساہم لوح طلسمِ اسرارِ دادار کردگار، اور وہ دو ہلالِ مساہم، ہمدگر مادۂ سحرِ حلال۔ اور وہ معادلِ رماحِ معرکہ آرا ھُوَ ھُوَ سماکِ رامح۔ اور وہ دو صادِ کلکِ مالکِ معاد کا وہ عالم اور دھوم، کہ لوحِ([17]) مہر و ماہ و سوادِ دورۂ دھر ہر ہر واحد محکوم۔ اور محلِ سمع ہر واحد محسود، کل۔ اور معاملہ دمِ ادا اُس مساہم و ہمدمِ صور کا کہ حامل اور محرک ہالۂ طلا کا مع لعلِ واحد اور دو گوہر ہوا۔ اللہ، اللہ! واللہ کہ واہ، اور واہ سو واہ، سو لاکھ واہ! اور دو گال کا اس طرح کا کمال، کہ ہو ہو مہر و ماہ کا سا حال۔ اور اُس سلکِ گوہر اور لعلِ احمر کا وہ احوال، کہ لالۂ حمرا اور اوس کا عالم ۔اور وہ محلِ مسِ اہلِ دول امرودِ ارم آسا آرام روحِ حور، اور گود اُس کا([18]) سہا کا دارِ سرور۔ گلا کوکلا کا سا، اللہ، اللہ! وہ لولو : لا لا کا ہار، اور محل اُس کا مساہم سحر محرکِ مردہ۔ لاکھ سر کا ہو کر سرو اگر علم آرا ہو، اُس کو کہدو کہ اُس سرو کا سا مراد کا (ہو)([19])۔ کولہا([20]) وہ کولہا کہ در اصل عسل دار مگس وار ہو۔ اور وہ موردِ حمل گدگدا، اوہو ہو ہو، اہا ہا ہا! گرہ مو([21])۔ کمر اُس گرہ کا معا کسہ۔ سُرّہ وہ سرہ، ہمسر کلمۂ سرہ۔ اور وہ اودا اودا([22]) سا لہلہا مو دار مدِ عکسِ مار کا کل، الہا، المدد، المدد! اور روماول کا کالا گود سر کا سہارا کھا کر رودِ ماء العمر کا طامع ہوا۔ اور ہالۂٔ گہر دارِ طلا کا مور، سہاگ لہر والا ہلا اور اُس کو گھورا([23])، سہم سہم دودلا ہو کر، دو کوہِ الماس کا آسرا کر، رُک رہا۔ اور وہ موردِ الماس و لعل و گہر، کہ ہر گرد اُس کو مل مل محسودِ سما و سمک ہو، سہا و عطارد کا گھر۔ اور وہ گول گول ساعدِلامع موردِ مرور ماہ، اور وہ مادۂ([24]) مار کا مولد کہ ہر عروس کا رسوا گھر ہو، لاکھ دل کا محل آرام۔ اور وہ دو کوہِ طلا، اُس دو کرۂ مدور اور گول گول کا معاکسہ کمر کہ([25]) مردار کا وہم کم رکھ، محلِ سروکار کو مسودۂ سمِ آہو لکھ۔ اور عکس اُس آگ کا، وہ آگ کہ محاورۂ کلامِ اہلِ مکہ ہو([26]) ورل آسا۔ اور وہ دو محلِ سرِ اہلِ ہراس و وسواس، دو کاسِ مدور، الماس۔ اور وہ دو عمود طلا کہ داماد عروس کو گھر لا کر اُس کا حامل ہو، مدارِ سرورِ اہل ہوس۔ اور وہ حاملِ سلسلۂ صدا آرا سمکِ طلا۔ اور وہ دس کلک لعلِ احمر مدارِ ہرکار، معصرِ دل اور معاکسہ مساہم ہر واحد کا، اور وہ مصلحِ عکسِ صلح اُس دم کہ حا کو سمسم اسودِ مداد کار کہہ کر معلم کرو، دس دس ہلال ہمراہ ماہ کامل۔

کلام مہر آلودِ طاؤس مراد

الحاصل وہ مردِ صد سالہ اس کلام کو مسموع کر کر رحم آور ہوا، اور اُس کو کہا کہ “وہ سرمہ اور وہ عصا اور وہ کاسہ اور رسا اگر درکار ہو، لو، اور مدعا دل کا ہر طرح حاصل کرو۔ و اِلا سرِ کوہ رہو، دال اوگرا ہو گا، سو کھاؤ۔”

وہ دلدادہ رو کر اس طرح کلام آرا ہوا کہ “مدعا دل کا حصول وصال دلدار سوا اور ہو، سو معلوم۔ اللہ کا رحم اور سرکار کا کرم اگر مددگار ہو، حل ہر گرہ سہل، اور دکھ درد دور ہو گا۔”

ورودِ طاؤس مراد در محل و مکالمۂ او و گلرو

ہر گاہ اس طرح کا مکالمہ ہمدگر مکمل ہوا، وہ کمال آگاہ داد رس ہر اہلِ درد گھر کو سدھارا، اور کل اہل و اولاد کو للکارا، اور مولودۂ مسعودہ([27]) گلرو کو کہا کہ “او گل رو، ادھر آ، کہ مہر طالع کا ولدِ اسعد، ماہ ساطع ملک روس، ملکۂ گوہر آرا کا والہ و دلدادہ ہو کر ادھر وارد ہوا۔ اللہ، اللہ! عالم اُس کا اس طرح کا:

کلامِ مصرع دار

اہلا گہلا رسمسا، گورا گورا، واہ! سادا سادا، گد گدا، گول گدا کا، آہ!


اور معا کسہ اُس محامد کا اس طور:

معاکسۂ کلامِ مسطور

گورا گورا، واہ! اہلا گہلا رسمسا گول گدا کا، آہ! سادا سادا گد گدا


وہ کام کر کہ اس امردِ سادۂ دلدادہ کو آسرا سہارا، اور دل اُس کا لہلہا ہو”۔

گلرو کا، مسکرا کسمسا کر، کمر کولہا([28]) ہلا کر، مالا مال ہو کر، سر ہلا اور دل کھلا، اور کہا کہ “اس کلام کا مآل([29]) ہو، سو معلوم کرواؤ۔”

کہا کہ “وہ سرمہ اور وہ کاسہ اور وہ رسا اور وہ عصا لا دو کہ اُس کا کام اور ہم کو آرام ہو۔”

کہا: “دادا، وہ موا کاسہ واسہ([30])، سرمہ اُرمہ، رسا وسا، عصا وصا، کس کام، واسطہ، مدعا؟ ملکۂ گوہر آرا اور ہم ہم عمر اور ہم کلام۔ اُس کا کام ہم کو کل معلوم، اور ہمارا سارا اسرار اُس کو۔ اگر واسطہ ہمارا ہو گا، مدعا لا کلام ہوا، و اِلا، لا۔ اُس کو کہ دو کہ گلرو کا کہا ہو، اور سر مُو اصلا۔”

وصلِ ماہ ساطع و گلرو کہ مساس و معاملہ طورِ  دگر آمدہ

مرد صد سالہ اس کلام کا آگاہ ہو کر، اُدھر رہگرا ہو، اور اُس کو کہا: “آ، ملکِ روس کو دلا سادہ ہو۔”

الحاصل، اُس مرد آوارہ کا اور اُس کا ہمدگر ملاؤ ہوا۔ لہر، گو کھرو، ململ، گھاس، اطلس کا سادا سادا طور کر کر، اُس ساحرہ کا دل کھلا۔ اُس دم وہ لعل کا گھر ادھر، اور الماس کا سہ درہ([31]) وا ہوا۔ مردِ صد سالہ، گلرو کا دادا، علاحدہ دور رہا۔ مدعا کہ ماہِ ساطع ہمراہِ گلرو اُس گھر کا صدر آرا ہوا، اور سلسلۂ کلامِ گلرو اول اول اس طرح ہلا:

کلام مصرع دار

آگ([32]) لگاؤ، گرم ہو، آہ، رہا سہا کرو وہ کہ دُراؤ([33]) والا ہو، اُس کو اکل کھرا کرو دور کرو دراؤ کو، سارا گلہ ہوا کرو ہم کو ملو، دلو، کھلو، کھولو، گرہ کو وا کرو آو، گھلو، ملو، کھلو، گود کو گد گدا کرو کوکھ([34]) مسوسو، کوس لو، اور ملولا گولا([35]) کھاؤ رولا کرو کہ دھوم دھام، آو، مگر ملو ملاؤ گرم رہِ سلوک ہو، مروحہ مہر کا ہلاؤ دور کرو دھاک کو([36])، لہرا سہاگ کا لگاؤ دکھ کو سکھا کر([37]) آگ دو، راکھ کو سرمہ سا کرو


ماہ ساطع، گلرو کو گھور گھور گرما گرم ہوا، اور کہا : “اوہ، لو آو، کہو، سو ہو۔”

اول حد سوا مساس ہوا، اور مساس ہو کر عمود کا سر ہلا، اور رس کا درا وا ہوا، اور اس کام کا لگاّ لگا۔ ہر گاہ لہرا لہرا دم مار مار کر، وہ راہ مار گھسا، اور دھکا([38]) گہرا لگا، گلرو کا کولہا دکھا، مسوسا کھا کر کہا : “کس طرح کا مردوا ملا، کہ رس کا محرم ہو، سو اصلا، اس کام کو آگ کا لوکا! موا گد گدا گدا کا سا سادہ لوح کدھر دھر دھمکا؟ ملکۂ گوہر آرا کو رسوا کر کر ادھر آ کودا۔ اس کو مکا، اُس کو دھول، اس کو ہودا۔ لو اور گل کھلا کہ لال لال اودا اودا سا لوہو گرا۔ حملہ کر کر گوکھرو سارا ملا دلا۔ آدم کہ موا گدھا۔”

الحاصل وہ کالا، آس مراد والا، اوس لس دار اگل کر مردہ([39]) سا ہو کر گرا۔ گلرو کا اُس دم لعلِ گوہر دار ہلا اور کہا: “موا ملکۂ گوہر آرا کا مردودِ درگاہ گھر کا مالک ہوا۔ الہا! لوکا لگا اس سہاگ کو! وہ لگا کس طرح اور کس کام کا کہ گہرا گد کا مار ہم کو ادھموا کر کر ہوا ہو، لوگو، اس طرح کا لگور دوسرا ہو، سو معلوم۔ اول اول دعا اور سلام اور کلام کو حوالۂ سہو کر کر اور مدعا کو آ لگا۔”

ماہ ساطع اول دم کھا رہا۔ ہر گاہ گلرو کا کلام سارا مکمل ہوا، سر ہلا کر کہا کہ “واہ، واہ، حد کرم([40])، ہم سا اور سادہ لوح دوسرا کد ہو گا کہ سرکارِ والا کا کام اس طرح کر کر سادہ لوح کا سادہ لوح رہا۔ کرم اور مہر کدھر، کہ مورد ملال ہوا! واللہ! اگر ملکۂ گوہر آرا کو اس طرح کا سرور حاصل ہوا، معاً اس حور کو مل کر معلوم کرو کہ مار رکھا ہوگا۔”

صعودِہدہد، گلرو، و وصولِ او در مصور محلِ ملکۂ گوہر آرا

اُس دم اُس ساحرہ کا سحر معلوم ہوا۔ واہ، واہ! اِلو، گلرو کدھر، گلرو کا ہد ہد ہوا، اور وہ ہد ہد صعود کر کر ہوا کو ملا۔ ملکۂ گوہر آرا کا گھر اُس کا آرام گاہ ہوا، اور سر اُس کا کھلا۔ اُس دم ملکۂ گوہر آرا کا دل گل گل کھلا، اور اُس کا آگا روک کر کہا کہ “سرک، او کم مہر۔ سال و ماہ سلام ولام، لکھا وکھا؟، روکھا سوکھا دلاسا، سو اصلا۔ سراسر سہو محو، دور ہو، لا حول ولا۔ اس لاگ کو آگ کا لوکا!”

اُس دم ہد ہد آدم ہوا، اور وہ آدم کھل کھلا کر اس طرح کھلا کہ “مالک ہو۔ کہو، سو کہو، اور گلہ([41]) کرو، مارو، ہمارا اور مدعا ہو، سو معلوم، الا ملکۂٔ گوہر آرا کا ہر طرح سرور۔ او ماہرو، ادھر آ، ہمارا اور ملکۂ گوہر آرا کا معاملہ لکھ رکھ۔ کل کو اِدھر اُدھر گلہ ہو([42])، گواہ ہو کر کہ کہ گلرو کا دوس ہو، سو معلوم۔ اُس کا الحاح سوا اور طرح کا کلام ہو، سو اصلا۔

ماہ رو کا سو ادا کھا کر، لعلِ گوہر دار ہلا، اور کہا کہ “لو، آؤ۔ دم لو، آرام کرو۔ راگ واگ گاؤ۔ ہمدگر کا گلہ ولہ([43]) سارا دور کرو۔ گال ملو، گال ملواؤ۔ محرم کھولو، محرم کھلواؤ۔ مساس کرو، مساس کرواؤ۔ گول گول کولھا ملو ملواؤ، آہ واہ کرو کرواؤ۔ گلرو کا اسم “گلو” رکھو اور ماہرو کو ہمدگر، صلاح کار کر کر اس کا صلہ([44]) دو۔”

الحاصل، سرِ محرم کھلا اور ہر طرح کا مساس اور گھل گھلاؤ، اور مل ملاؤ ہو کر راگ کا لہرا لگا۔ ملکۂ گوہر آرا کا سُوہا، واہ، واہ! اور گلرو کا دائرہ، اللہ، اللہ! ملکۂ گوہر آرا کا دل اُس کا دائرہ مسموع کر کر مسرور ہوا، سراہ کر کہا کہ “گلرو، اگر اس دم مال اور ملک درکار ہوکہو، کسو اور کو دلوا دو۔ اور اس گوہر آرا کو مملوکہ معلوم کرو۔” کہا کہ اس گلرو کو وہ دو کہ اُس کو درکار اور اصل مدعا اور مراد ہو۔

کہا کہ “گُلُو، کہ”

کہا کہ “ماہ ساطع ولدِ مہر طالع، ملکِ روس، حورسا امرد گوہر آرا کا مساہم، اہلِ کمال کا ممدوح۔ ہر کام کا کس والا، اُس حور کا کہ اسم اُس کا گوہر آرا اور والد اُس کا والا گہر اور والدہ مہر آرا ہو، والہ ہو کر واردِ کوہِ طلا ہوا۔ اور دادا([45]) طاؤس مراد کو مل، اہلِ دل اور رحم والا معلوم کر، سارا احوال کہا۔ دادا کمال مصر ہوا اور کہا کہ گلرو، اس دلدادۂ رُوسادہ کا کام کر دو۔ ملکۂ گوہر آرا کا گھر اگر معلوم ہو، ہُدہُد وُد ہو، کوکلا ووکلا ہو کر صاعد ہو، اور اُس گوہر آرا کا احوال معلوم کر۔ اگر اسہل ہو، لگا اس کام کا لگا۔ اور اگر اس طرح محال ہو، اور صلاح کر۔ سو اس دم اس مملوکہ کا آمد آمد کا واسطہ اس کام سوا اورہو، سو معلوم۔ اور اس سوا کام اور ہو، سو اصلا”۔

کہا کہ “وہ امرد معلوم ہوا کہ طاؤسِ مراد کا گھر کُودا، اور اُس لعل کا مالک ہوا کہ لعل کا ادھر گھر اور الماس کاسہ درہ اُس کا وہ ہوا دار، اور اسم اُس لعل کا گلرو۔ واہ، واہ! اِلُو امرد اور کس والا ہر طرح ممدوح ہو، وہ لعل کا گھر ادھر اور الماس کا سہ درہ اور ہوا کا عالم اور گہرا گد کا اور کُھل کُھلاؤ اور مل ملاؤ۔ اُوہ، اُوہ! اس آمد کا مآل دراصل لگاؤ کا کمال، اور محرم کا ملا دلا گوکھرو اُس کام کا گواہ حال۔ گلرو کا مائل گوہر آرا کا طامع ہو، سو اصلاً۔”

کہا: “ملکہ([46])، اس طرح کا کلام کم اور سارا گلہ([47]) گم کرو۔ گوہر آرا کا والہ و دلدادہ گلرو کا محرمِ اسرار ہو، واہ عدل! لو سر کو، مآلِ کار معلوم کر کر اس طرح کہا کرو۔”

کہا: “اگر مُکرو، مُکرو۔ دل کا احوال سو اللہ کو معلوم ہو گا۔”

کہا: “ملکہ، کلام سرکار کا اصلِ اصل۔ وہ سرکار کا مملوک اور گلرو مملوکہ۔ اُس مملوکِ مردہ کو محرمِ اسرار کر کر عمرِ مدام کا مالک کرو۔”

کہا : “اگر سرورِ دلِ سرکار اس طرح ہو، طوعاً و کرھاً اولا([48])۔ اما مہر آرا کو آگاہ کرو کہ ملک والا گہر، ہمارا اور اُس کا مالک، اس احوال کو مسموع کر مسرور ہو۔ اگر اس کا اُس کا حکم لو، اس طرح کا مردوا حور سا امرد، واہ، واہ!”

گلرو کا ملال دور اور دل مسرور ہوا، اور ملکۂ مہر آرا کو سلام کر کر کہا کہ “اما، گوہر آرا کا دل، ماہ ساطع ولدِ مہر طالع ملکِ روس، کا طامعِ وصال ہوا۔ واللہ! اُس سا امرد اور حور سا مردوا اور ہو، سو معلوم۔ گوہر آرا کا ماہرِ حال ماہرو اور اس گلرو سوا اور ہو، سو اصلا۔ رو رو کر حال اُس کا اس طرح ہوا کہ کہو اور روؤ([49])۔”

مہر آرا کا دل ملول ہوا اور کہا کہ “اُس امردِ سادہ رو حور طور کو لا۔”

گلرو کا اُس دم مکرر ہُدہُد ہوا، اور وہ ماہ ساطع امردِ دلدادہ، آلودہ درد و الم کا، مکرر اُس مصور محل کو آ دھمکا۔

کلام در حصول اہمِ مرام

الحاصل دولہا([50]) ہو کر وِسادہ آرا ہوا، اور لاکھ حورِ طاؤس کردار اور سو لاکھ اہل سرود کا لگا لگا، اس طرح کہ کوسِ رعد آسا،اور دہلِ([51]) سامعہ سا، اور اور دمامۂ اسد صدا، اور عودِ حمامہ آوا کا ہمدگر مل کر سُروُر۔مدہم و دہم، سادہ وادہ، اور گاہ اور صعود کر کر سرگم کا حورِ ارم کا سا عالم ہوا۔ اور ادھر کامود، گاہ مدھ مادھ اور ملار، گاہ کدارا اور مالکوس سا راگِ سامع آرا مسموع کر دل ملوک اور اُمرا کا کھلا۔ ممولا اور کلو کا وہ کلام کہ “کملا محرم دل دادہ” ہر سامع کو سراسر آگ لگا کر الگ ہو رہا، اور سادھو مادھوکا ادا دکھا دکھا کر دھوم دھام کا رولا کہ سُدہارس کا کھا ہوا وہ “دِر دِر، دِر دِر، درا، درا، آہِ دِر دِر، دِر دِر، درا درا۔”

کلامِ مصرع دار

وصلِ دلدار آمدہ دردِ دلِ ما را دوا رو، ارسطو، رو ،ارسطو، دردِ سر ما رامدہ


کودکِ دہ سالہ اور مردِ معمرِ صد سالہ کو رُلا رلا کر روح کو آ لگا۔ گل محمد کا سالا، مکھو، ہر گاہ دائرہ سمہال کر کوکلا سا اس طرح کوکا :

گوکل کر مورلا کوک رہو ہو رادھا ہر کا ہو اُور سدھارو


اُس دم ہر دل کا ارادہ کر کر کرا آگ کا کر، ہمراہ رود و سرود راگ کا لہرا اور سُر سم کا لگا لگا کر علاحدہ علاحدہ ہر گروہ([52]) آد م کا طور اور ہُو ہُو ہر کدام کا کلام، اس اس طرح ادا ہوا کہ واہ، و اصلا۔ کلو، مرادو، امامو کا کہرا کہرا([53]) گہرا گہرا کہروا، دُھرا دھرا کر کولہا([54]) ہِلا ہِلا، گلا لہر لہرا، دولہا([55]) کو گھور گھور، دم سادھ، گم ہو، گا گا کر : “اودہو مہرا گہرا والا حاکم ہم را” اس طور کہ، واہ!

اور واہ، واہ! وہ رہس لالہ رامداس کا، اور وہ سارا عالم، اور کالا کمل والا گوالا، اور وہ سو سر کا کالا، اور وہ اوس، اور وہ گھاس، اور لاکھ گؤ کا دودھ، اور گؤرس، اور لاکھ گاگر، اور رس کا ساگر، اور اُس راگ کا لگاؤ، اور آگ کا الاؤ، اور ہر ہر درگ مرگ سا، ممولا سا، اور گوکل کا سارا اُداسا، اور اُدھر کا ادھورا دلاسا، اور وہ دھوم دھام کا رولا، اور راولا کوسا، اور آس کا لگا لگا کر، سولہ سولہ سو کا مسوسا، رو رو کُہک کہک سُلگ سُلگ دہک دہک، سر گال کوراکھ دھول مل، اس طور کہ

ہاہا، او دھو ہردوارکا کو سدھا رو کا ہو کہا دوس سگرو دوس ہمارو


اور واہ واہ! وہ آلہا او دل کا راگ ہُمک ہمک اور کورو کا گھما کا، اور ہر ہر سور اور سُودر کا گھل گھلاؤ گہک گہک، اور واہ! وہ سرِ راہ گولر کا آسرا اور کولک کا لگا، اور وارد و صادر کا دُگھدھا، اور ادھر اُدھر ہرکارہ لگا ہوا، اور آمدِ مالِ سوداگر، محرر اُس کام کا لا لا گردھر اور للُو اُس کا سالا اور سسرا اُس کا مادھو رام، اور ہمدگر اس طور کا کلام کہ “مہر کا گھور محمد سرور کو راگ اس طرح ہوا کہ ہوا کو کوا کرا۔” 

کلامِ مصرع دار

مہِ ما امرد سدہ سدہ([56]) دردا دردا ددہ([57]) صدا کہ درا درا اِدرا([58]) گدا ہُد ہُد ہما کو سر و دُم ہلا ہُلولُوم ہُلولُوم ہُلولُوم ہُلولُوم


اور گھورک گھورک گھور گھور مردِ حمد آور کا کلام اور کُراگ اس طرح کا

کلامِ مصرع دار([59])

کورار کورار کورار اول گورلوک و کلگوارہ سوکار سوکار و کولار کولسام و اور گولسام اول کور گولوک دور مو کور گولوک دور اول کور گولوک دور موکور گورلوک دور مولوموک دور


واہ، واہ! وہ دورہارا، دکھا دکھا، دھمکا دھمکا کر، معاملہ([60]) حال کا سا اُس گروہِ دذآسا کا، کہ اصل مولدِ کل روہ اور ہر واحد اُس گروہ کا عکسِ مرادِ احمر([61])، اور کل کا طور سو اس طرح کہ عمامہ ململ کا اور دس اطلس گلدار کا گھگرا دُمِ طاؤس سا، اور کالا کمل کسا ہوا کمر کا سہارا، سرمہ سراسر گُھلا ہوا، اور وسمہ لگا ہوا، اور وہ ہرارا اور حملہ گہرا، اور سرود کا لہرا، اور سر ہلا ہلا اُکس اُکس کود کود اعادہ اس کلام کا: “ملا سردارا، اِسکؤا، اِسکؤا۔” اور اللہ، اللہ! وہ مکالمہ علماءِ اہل دہ کا ہمدگر اس طور کہ “ملا صدرہ اس اس لِکھس رہا۔ ملا محمود مع اولہ اَس اَس کہس، اور حمدلاہ([62]) سُلم مُسلم والا دُؤ کو رد کرس۔ در اصل عِلمِ کا گھر، سو مدرسہ ملا سعد کا رہا۔ وما عداہا لا۔ اس کو درک کرو اور کا اور وہ کہ العلم مع العمل، کالمسك مع العسل۔”

اور وہ مردود، درگاہ سالار و مدار کا رولا، راکھ دھول سر کو لگا([63]) اور الاؤ آگ کا سلگا، اور وہ دھمال اور دھد کار کا معرکہ کہ “مدار مدار مدار، سالار سالار سالار۔”

اور واہ واہ! وہ کلام لا لا سدا سکھ کا کہ کھرا اُس سا دوسرا کم ہو گا، محو کاسۂ مدام ہو کر اس طرح کہ “درا درا درا، درا،راگ کا سرا۔در در در دور کر،در در در کس کا دُر، اُس امرد کا کہ ماہ آسا سا دہ رو ہو”۔ اور وہ ملمع کلہ کہ ماء الورد اور دُر دارو ملاؤ کر کر در کلوم دِہ۔ او مردک اُلو گُلو، حماِ ر صحرا گدھا گُدو، مگو، “کل کلا کلوا” مع “اکل، اکلا، اکلوا” کُلو لحمِ مملح، دگر راحِ آرامِ دل دہ، مل کر سورہ۔ اور اعادہ ہر دم اس کلامِ مہمل کا کہ “اللہ اور رام، کلاہما واحد”۔ لا حول ولا۔

اور محاکمہ گروہِ ملاحِ اہلِ اسلام کا اس طور([64]) : “مُسُعُدا گُتُو، کُدا وُ ہُم کُرو، رُسا کُسُو اُس کُسو، دُوہُو، گُورُس کُرُو، لُکا دُہُرو، مُو لُوک مُو لُوک مُسکا کہاؤ کُہوا کھاو گُولُوک۔”

مکالمہ او سوال، اور وہ دوارکا داس او سوال کا کورۂ حداد سا گال، اور وہ لس دار رال کا معاملہ گؤمکھ سا کلا، سر کھلا، اور اُس کا وہ محلِ امعا دمادمۂ رعد صدا، اور مکارام مکارام اُس کا گر، اور سرگم کا سا سُر۔

معاملۂ اہلِ حال

اور وہ آمد آمد اہلِ کمال، اور وہ عمامہ، وہ کلاہ، وہ رِدا اور سماع و حال، اور وہ عرس کا احوال؛ اور وہ ولولہ اور سودا، اور وہ سوکھا ساکھا گردۂ مدور([65]) اور کاسہ([66]) دال عدس کا رُوکھا؛ اور حرص و ہوا، اور وہ راگ اور صدا، اور دائرہ اور دورہ([67]) “اللہ ہُو” کا؛ اور وہ اُہو ہُو ہُو، اَہا ہا ہا سر اور عصا اور رومال ہلا ہلا کر، رو رو، رُلا رُلا کر۔

اور وہ لاہور کا سکھ گرو امر داس والا، اور اُس مردود سُؤر کا “واہ گرو واہ گرو” کا معاملہ اس طور کہ لا حول ولا۔

اور وہ دس مرد کہ ہر واحد کا سو دھرا مولد اور ماوا، اور اسم ہر واحد کا اس طرح: رُولدُو([68]) گُلو([69])، گھمّا([70])، دُھوما، ملھّا، سلھّا، کلا، مہروُ، محمد مراد، سمُو، آ کر ہر واحد اس طرح کوکا، اور دُھرا دھل محرمِ صدا ہوا۔

کلامِ مصرع دار

کرم اللہ دا لکھ طرح دا، اس دولہا دا لال رومال سرور سرور سرور سرور آکھ رہا کر گھمّا لال سہرا دا([71]) سرور دا رُولدو، سرور راول دولہا ہوءک دولہا دا گھر اللہ وساؤک، سرور دا اِہ کولا ہوءک


اور ، ملّھو، اور عصمو، اور امامو، اور مرادو اور کرمو، کہ ہر واحد کا گھر لاہور، اور کام ہر واحد کا سو ہلا آ کر اس طرح ہر واحد کا راگ ہمدم سمیع اہل سرور ہوا :

کلامِ مصرع دار

اما دا اِہ لال دُلارا دُولہا ککر ملہو وال([72])

اکھ([73]) ملاوک گھور رہا اَہ اما والا عصمو وال

آسا مل اما دا محرم کرم محمد مما مِلدا

اکھ(٧٣) ملاوک ککر دولہا آ کھ مرادو کرمو وال


سر سودا کلاہِ دود آسا ہد ہد اور مور کا سا طُرہ لگا ہوا سو دور دھر کر گلا ولا کس سا لال لال ہو، گھور گھور، گھورک گھورک، کود کود لُم اور مکرا اور مسکول کا گرما گرم گول گول گولا سا سلام، اور مسکرا مسکرا طاؤس وار کام، اور کلام اس طور :

وہو وہو او کلا آدم کالا آدم

لاو ول لاو ول درام درام


اور سوگوارا دارو اور رال کو آگ لگا کر معرکہ آرا ہوا۔ ماہ ساطع اور ملکہ گوہر آرا کو اس طور کا کلامِ مداحِ معرکہ آرا مسموع ہوا کہ اللہ، اللہ!

کلامِ مصرع دار([74])

حور عروسِ مدعا، صلی علی محمد

عطر سہاگ کا لگا، صلی علی محمد

واہ، وہ عالم اور ادا، سہرا ملا دلا ہوا

طورِ سحر سو رسمسا، صلی علی محمد

سلسلۂ کلام گرم، اور ہوا وہ سرد سرد

وصل سہا و مہر کا، صلی علا محمد

واردِ معرکہ ہوا مہرہ ماہ و مہر([75]) کو

اور عطاردِ سما، صلی علی محمد

آس مراد کا ادھر اور اُدھر کو گل کھلا

گل کدہ سارا لہلہا، صلی علی محمد

معرکہ دھوم دھام کا، وہ محل اور اُس کا وہ

کارِ مرصع و طلا، صلی علی محمد

صدرِ صدورِ رسم و راہ واردِ محکمہ([76]) ہوا

مہر ملوک کا لکھا، صلی علی محمد

طرۂ لعل و گوہر اور سلسلہ راگ([77]) کا کھلا

وا درۂ ارم ہوا، صلی علی محمد

صلی علی محمد، آلِ رسول کا رہا

ہم کو مدام آسرا، صلی علی محمد

سورۂ حمد اور درود ورد کر انشا،([78]) واہ واہ

واہ، کرور واہ وا، صلی علی محمد


اُس مداح کو اس کا صلہ([79]) آگرا، اور اُس کا گردا گرد اور کمرِ مرصع اور عطر اور طرۂ گرہر اور ہار گل([80]) کا ملا، اور کہا کہ “واہ، واللہ، واہ!۔”

اور حکم عالم مطاع کامو اور کادو اور گوگا اور رمو اور کملو کو صادر ہوا کہ کل اس کو گاؤ۔ لاکھ حصارِ طلا کار، دس لاکھ ہالۂ ماہ کردار اور سولہ لاکھ سہ درۂ الماس وار، اور سو لاکھ طاؤسِ ہما کردار، ہر ہر واحد آگ کا کرمع([81]) گلکدۂ ارم اگل اگل معرکہ آرا رہا۔

اور رعد صدا وہ گرما گرم گولا کہ سما و سمک کو دہلا دہلا ہلا ہلا کر محلِ طلوعِ صد مہر و ماہ و سہا و عطارد ہوا، اُس کا عالم اس طور کا کہ واہ!

اور وہ کرہ مدور سا اطلس کا کہ آگ کا لگاؤ اور دود اُس کا حاملِ ہوا، اُس کا صعود، اللہ اللہ!

ہر گاہ ماہ عالم آرا کا سدس عہدِ عمل رہا، اسعد الدولہ ملا محمد کامل، اور اکرام الدولہ ملا محمد لامع کو دو گواہ کر کر دولہا آمادۂ وصال دلدار رہا۔ اور عروس کا سرآمد وکلا صدر الصدور، صدر الدولہ، مکرم الملک ملا محمد واسع ہوا۔ اور داماد کا عماد الدولہ، مصلح الملک ملا محمود۔ الحاصل وہ دس سطر کہ عروس و داماد کا معاملۂ([82]) ہمدگر اُس سوا ہو، سو معلوم، مع([83]) مہر و مُہر و گواہ دولہا([84]) حوالۂ سمع کر کر محل سرا کو سدھارا۔ اللہ، اللہ! وہ آس مراد کا موسم اور اُس دولہا کا طرۂ الماس اور لعل کا عالم۔ اور وہ سہرا سلسلۂ گوہر اور گل کا اہلا گہلا، اور وہ ہارِ مرصع کا لہلہا، اور وہ سہاگ کا عطر، اور وہ محل سرا کا معاملہ، اور گھر کا وہ سُر راگ علاحدہ علاحدہ اور طور کا۔ اور کل رسم و رسوم اور معمول، اور اللہ کا رحم اور دھوم دھام، اور وہ ماہ رو کا گُلگلا سا گال اور اُس دم کا حال، اور وہ گہما گہم، اور وہ ملولا، اور وہم اور مسوسا، اور ہراس اور لاکھ طرح کا وسواس۔ اور اس ہم عمر کا دلاسا اور اُس کا اُداس اُداس کلمہ و کلام، اور اُس کا گھلاؤ ملاؤ، اور وہ سُوھلا کہ “لو، وہ اگلا اکہرا دُھرا ہو کر اس طرح آ لگا” اور اُس کا رکاؤ اور دل کا گھاؤ اور رکھ رکھاؤ۔

واہ واہ، وہ محل سرا کہ طرحِ اساس اس طور حدِ معمار ہو، سو معلوم۔ ہر موسم کا علاحدہ علاحدہ عالم۔ موسمِ سرما کا عالم اس طور : وسطِ گلکدہ گول گھر کلاہِ سمور آسا، اور ہر ہر در کو اصلِ طوس لگا ہوا، لمعۂ مہر وسط السما، سرو سا دگلا ہوا کا گد گدا ملمع مطلا۔ اگر کا عطر اُس کا حوصلہ آرا، اور راگ کا سُرور سَرا وِرا معلوم، مگر مدھ مادھ کا دورہ، اور عود کا ہرارا، اور ہا ہا ہا! وہ گہما گہم کا موسم، اور دمکلا وہ کہ اُس کا اس طرح کا عالم کہ دو کوس والا مار کھا کر لال ہو۔ اور وہ کلال اور گالم گال، اور وہ آمد آمد کا سُر اور دھمال، اور راگ اس طرح :

مادھو ہو درس دکھاؤ رادھا کو دوؤ ادھر گہکر سدارس لو

اور موسمِ گرما کا حال اس طرح کہ طلوعِ ماہِ طلسم کس سحر کا سا معرکہ، موگرا کا گھر، گوہر آمودہ ہر در، گردا گرد لہر اور گو کھرو کا لہرا، اور راگ واگ اصلا، مگر کامود اور کدارا۔ 

اور اللہ اللہ! وہ اودا اودا احاطہ کوہسار کا سا گردا گردِ دورۂ عالم، اور وہ اھا گہلا لہلہا ہرا ہرا موسم، اور واہ واہ! وہ عروسِ رعد کا رولا کہ اس طرح معلوم ہو کہ آگ کا کُرہ، ہل ہل کر گرا۔ اور وہ مدِ طلا کار اور دلک اور دمک اور موسل دھار اور سارا محل سرا طور طاؤس ہوا دار۔ اور ہر ہر در اور ہر ہر کھم کو سُوہا ململ اور سوہا ادرسہ لگا ہوا۔

اور واہ واہ! وہ کوکلا اور وہ کدم اور اُس کا گلا کسا ہوا محو و آوارہ، اُس کا ہار رسا گہوارۂ مرصع کا اور راگ واگ، گو([85]) دہدکار، کس کو درکار مگر ملار ملار ملار۔

الحاصل اُس حورِ ماہ آسا کو وصل اُس سروِ دلآرا کو حاصل ہوا۔ او لوگو، سر کھول کھول دعا کرو کہ: الہا، اُس طرح کہ ملکۂ گوہر آرا اور ماہ ساطع کا ہمدگر مدعا ملا، اُس طرح ہمارا اور کل عالم کا دل مسرور اور دکھ دلدَّر دور ہو!

اہلِ عالم کو معلوم ہو کہ معمارِ اساسِ “سلکِ گوہر” طلسم کا اسم، مرادِ “لَو اَرادَ اللہ”([86]) ہمسرِ املا، ولدِ مدلولِ “مَا اَرادَ اللہ”([87]) مصدر، ولدِ معلوم “لَمَـــعَ اللہ”([88]) ہوا۔ سو ہم اور ہمارا والد اور ہمارا دادا سگِ درگاہِ اسد اللہ، رحمہم اللہ، ہر کدام کو مسموع ہوا ہوگا کہ وہ مردِ عمدہ، والد محررِ سطور کا آلِ رسول اور صلاح کارِ اُمرا، سر آمد حکما مع علم و کوس ہمسرِ رؤسا، دلاورِ معارکِ اہلِ حسام دو دم، سالکِ مسالکِ کرم، سرگروہِ اہلِ ہمم رہا، اور سحر و مسا مدام، دمامۂ حمامہ صدا اُس کا سرِ عام، اور عموماً اطعامِ وارد و صادر کا واسطہ، اور محرکِ سلسلۂ صلہ([89]) اور علوِ حوصلہ اُس کا وہ کہ دم سوال ہر کدام کو موسم سرما گرما گرم کمل اور موسمِ گرما دوہر ملا۔ مردِ طعام دہ، مددگارِ کہ ومہ، درد دکھ کا سہارا، گھر اُس کا اہلِ کمال کا آسرا۔ الٰہا، اس کا صلہ(٨٩) اُس کو دلسارا رور اور مدامِ طہور عطا کر۔ اور سو لاکھ گرہ کو وا کر!


[1]۔ اس عبارت میں “انشا لکھتے ہیں”کے بعد سے یہاں تک خود انشا کے اپنے الفاظ ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس نے جگہ جگہ ترکی عبارت کے ساتھ اردو جملے لکھے ہیں۔

[2]۔ اصل : معہ ۔ لیکن ضمیر غائب کا اضافہ نادان کاتبوں کی غلطی سے ہوتا رہا ہے۔ اس لیے میں نے متن میں اصلاحی صورت اختیار کرنا مناسب خیال کیا۔

[3]۔ اصل میں یہاں “علیٰ” اور آیندہ کہیں کہیں “علی” اور زیادہ تر “علا” لکھا ہے، تاکہ حرف یا سے جو اصلاً نقطہ دار ہے، احتراز کیا جا سکے۔ اس منشا کے پیش نظر میں نے ہر جگہ الف سے لکھنے کو ترجیح دی ہے۔

[4]۔ اصل میں “ولولا” ہے، لیکن بعض جگہ کاتب نے صحیح املا “ولولہ” بھی برقرار رکھا ہے۔ چونکہ ہائے ہوز خود بے نقط ہے، میں نےہر جگہ صحیح املا کو ترجیح دی ہے۔

[5]۔ ملاحظہ ہو کلیات انشا: 182

[6]۔ اصل میں یہاں ایک لفظ کی بقدر جگہ میں نقطے ہیں۔

[7]۔ اصل : سلسلا۔

[8]۔ اصل : آہو رہ گم کردہ۔ مگر میرے نزدیک “رہ گم کردہ” ملک روس کی صفت ہو ناچاہیے۔

[9]۔ اصل : ولولا۔

[10]۔ ملاحظہ ہو کلیات انشا : 230 حاشیہ۔

[11]۔ اصل : اودھر

[12]۔ اصل : معہ

[13]۔ اصل میں کاتب نے “موسا” لکھا تھا۔ مصحح نے چھیل کر “موسیٰ” بنا دیا۔ میں نے پہلی کتابت کو ترجیح دیتے ہوئے “موسا” کو متن میں جگہ دی ہے۔

[14]۔ اصل : کاسا۔

[15]۔ اصل:کاسا وہ کاسا۔

[16]۔ اصل میں اس لفظ کے نیچے لکھا ہے : “یعنی اوصاف سراپا”

[17]۔ جملے کی عبارت چاہتی ہے کہ “وہ موسم” پڑھا جائے، مگر اصل میں “وہ” نہیں ہے۔

[18]۔ آج کل گود کو مؤنث بولتے ہیں۔ غالباً انشا نے آغوش کے قیاس پر مذکر لکھا ہے۔

[19]۔ اصل : ندارد۔ میں نے جملۂ سابق پر قیاس کر کے بڑھا دیا ہے۔

[20]۔ اصل : “کولا” دونوں جگہ پر۔

[21]۔ اصل : مو کمر۔

[22]۔ اصل : اواد او داسا۔

[23]۔ اصل : “گھوارا” بضم کاف۔

[24]۔ اصل : “مادہ” بتشدید دال۔ مگر یہاں “نر” کی مقابل “مادہ” مراد ہے۔ مادۂ مار، سانپن۔

[25]۔ اصل: “کمر کہہ” دونوں جگہ۔

[26]۔ یعنی ران، جو عربی لفظ نار بمعنی آگ کا عکس ہے۔

[27]۔ اصل : مسعود

[28]۔ اصل : “کولا”

[29]۔ اصل : مال

[30]۔ اصل : کاسا واسا

[31]۔ اصل : درا

[32]۔ کلیات انشا قلمی، 145 الف میں “لاگ لگاؤ” ہے۔ مطبوعہ دہلی : 235 سلک گوہر کے مطابق ہے۔

[33]۔ کلیات قلمی و مطبوعہ دہلی : “دوراو”۔

[34]۔ اصل : گو کہ۔ کلیات قلمی : کو کو، و مطبوعہ دہلی : گو کہ۔

[35]۔ قلمی : کو کہ، م د : گو کہ۔

[36]۔ م د : دھاگ۔

[37]۔ ق میں کاتب نے سہواً “سکھا کے” لکھ دیا ہے۔

[38]۔ اصل : دکہکا۔

[39]۔ اصل : مردا۔

[40]۔ اصل : گرم

[41]۔ اصل : گلا۔

[42]۔ اصل : کلا۔

[43]۔ اصل : گلا و لا۔

[44]۔ اصل : صلا۔

[45]۔ اصل : داد

[46]۔ اصل : ملکا

[47]۔ اصل : گلا

[48]۔ اصل میں پہلے “اولی” تھا۔ کسی نے چھیل کر “اولا” بنا دیا ہے۔

[49]۔ اصل : رؤ۔

[50]۔ اصل : دولہ۔

[51]۔ اصل : دہل دل

[52]۔ اصل : کروہ۔

[53]۔ اصل : کہرا کہرا۔

[54]۔ اصل : کولا۔

[55]۔ اصل : دولہ۔

[56]۔ بین السطور میں اس کے معنی لکھے ہیں : سادہ سادہ۔

[57]۔ ان لفظوں کے نیچے لکھا ہے : درا دا، درادہ دادہ۔

[58]۔ اس لفظ کے نیچے لکھا ہے : ادھر۔

[59]۔ پہلا شعر قصیدۂ بے نقط موسوم بہ طور الکلام کا آٹھواں شعر اور ترکی زبان کا ہے۔ کلیات قلمی (ورق 210 الف) میں اس کے الفاظ یہ ہیں:

کورار کورار اول کور کو لک و کلکوار سوکار سوکار و کولر کولسام اور کلسام


مطبوعہ دہلی (ص 128) میں اس طرح لکھا ہے :

کورار کورار کولار اول کورو کلکوارہ سوکار سوکار و کولر کو لسام اور کلسام


دوسرا شعر غالباً اسی موقع کے لیے کہا گیا تھا۔ کلیات میں اس کا پتا نہیں چلتا۔

[60]۔ اصل : معاملا

[61]۔ اصل میں لفظ کے نیچے لکھا ہے : “یعنی خرس”۔ احمر کو فارسی میں سرخ کہتے ہیں اور سرخ کا عکس خرس ہے۔

[62]۔ اصل: حمدلاہ۔ مولوی حمد اللہ سندیلی نے محب اللہ بہاری کی منطق کی عربی کتاب "مسلم العوےم" کی شرح لکھی ہے، جو مصنف کے نام سے "حمد اللہ" مشہور ہے۔ مسلم، یعنی مسلم الثبوت، اصول فقہ حنفی کی ایک عربی کتاب ہے، جو ملا محب اللہ بہاری کی دوسری تصنیف ہے۔

[63]۔ اصل : لگاو۔

[64]۔ ڈاکٹر صدیقی صاحب اپنے گرامی نامہ مورخہ 22 جون سنہ 1946؁ء میں تحریر فرماتے ہیں :

“وہ جو ملاحوں کی بولی کی نقل اُتاری ہے، وہ بنگال کے ملاحوں کی نقل ہے۔ بنگالی زبان کی بہت ہی عام چیز یہ ہے کہ آپ کا فتحہ ان کے ہاں ضمہ ہو جاتا ہے اور اکثر کسی قدر اشباع کے ساتھ اور کبھی پورا “و” ہو کر ان کی زبان سے نکلتا ہے، جیسے گھر گھور اور گنگا کو گونگا کہتے ہیں۔ انشا پیدا ہی بنگال میں ہوئے تھے، ملاحی کا پیشہ کرنے والے بنگال میں مسلمان ہی ہیں۔ اس لیے یہ بہت قرین قیاس ہے کہ بنگال کے ملاح مراد ہیں۔”

[65]۔ بین السطور میں لکھا ہے : نان۔

[66]۔ اصل : کاسا۔

[67]۔ اصل : دورا۔

[68]۔ دریائے لطافت میں رلدو بے واو معدولہ لکھا ہے۔

[69]۔ دریائے لطافت میں کلو لکھا ہے۔

[70]۔ دریائے لطافت (ص 252) میں کھما لکھا ہے اور پنجابی نام بتایا ہے۔

[71]۔ اصل : کا ۔ مگر پنجابی میں یہ علامت اضافت مستعمل نہیں ہے، اس لیے میں نے پنجابی علامت “دا” کو متن میں لکھنا مناسب خیال کیا۔

[72]۔ اصل میں تینوں مصرعوں میں “ول” ہے۔

[73]۔ اصل : آکہہ۔

[74]۔ کلیات انشا قلمی : 141 ب، کلیات مطبوعہ دہلی : 233۔

[75]۔ اصل : و، ندارد۔

[76]۔ ق و م : حاکم۔

[77]۔ ق و م : ہار۔

[78]۔ مقطع میں بہ مجبوری منقوط لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

[79]۔ اصل : صلا۔

[80]۔ اصل : کل۔

[81]۔ اصل : معہ۔

[82]۔ اصل : معاملا۔

[83]۔ اصل : معہ۔

[84]۔ اصل : دولہ۔

[85]۔ اصل : کو۔

[86]۔ اصل کے بین السطور میں اس جملے کے نیچے لکھا ہے : “ان شاء اللہ”۔ دیباچے کے حاشیے میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔

[87]۔ اصل کے بین السطور میں اس جملے کے نیچے لکھا ہے : “ماشاء اللہ”۔ یہ انشا کے والد کا نام ہے، مصدر ان کا تخلص تھا۔ “ما اراد اللہ” کے معنی ہیں جو اللہ نے چاہا۔ یہی مطلب و معنی “ماشاء اللہ” کے ہیں۔ پس جملۂ ثانی جملۂ اول کا مدلول یعنی مطلب ٹھہرا۔

[88]۔ اصل کے بین السطور میں اس فقرے کے نیچے “نور اللہ” لکھا ہے۔

[89]۔ اصل : صلا۔