سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
Appearance
سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
شہادت غیب کی خاطر تو حاضر ہے گواہی کو
نہیں ممکن کہ ہم سے ظلمت امکان زائل ہو
چھڑا دے آہ کوئی کیوں کے زنگی سے سیاہی کو
عجب عالم ہے ایدھر سے ہمیں ہستی ستاتی ہے
ادھر سے نیستی آتی ہے دوڑی عذر خواہی کو
نہ رہ جاوے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے
گنہ گاروں میں سمجھا کریو اپنی بے گناہی کو
نہ لازم نیستی اس کو نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے دردؔ ممکن کی نناہی کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |