Jump to content

سنئے اے جاں کبھی اسیر کی عرض

From Wikisource
سنئے اے جاں کبھی اسیر کی عرض
by نظیر اکبر آبادی
316053سنئے اے جاں کبھی اسیر کی عرضنظیر اکبر آبادی

سنئے اے جاں کبھی اسیر کی عرض
اپنے کوچے کے جا پذیر کی عرض

چھد گیا دل زباں تلک آتے
ہم نے جب کی نگہ کے تیر کی عرض

اس گھڑی کھلکھلا کے ہنس دیجے
ہے یہی اب تو کہنہ پیر کی عرض

جب تو اس گل بدن شکر لب نے
یوں کہا سن کے اس حقیر کی عرض

اب تلک دھن ہے حسن دنداں کی
دیکھ اس پوپلے نظیرؔ کی عرض


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.