سنو بات اس کی الفت کا بڑھانا اس کو کہتے ہیں
سنو بات اس کی الفت کا بڑھانا اس کو کہتے ہیں
کہا شب خواب میں آ کر کہ آنا اس کو کہتے ہیں
قدم وادیٔ وحشت ناک الفت میں رکھا ہم نے
ہزار آفات کا سر پر اٹھانا اس کو کہتے ہیں
ہماری بات کاٹی غیر کی تائید کی اس نے
گھٹانا اس کو کہتے ہیں بڑھانا اس کو کہتے ہیں
جو روٹھے ہم تو بولے بے دلی سے تم کہ آ مل جا
ادھر کو دیکھیو کیوں جی منانا اس کو کہتے ہیں
دل مضطر کے باعث روز و شب رہتے ہیں بس لرزاں
در و دیوار خانہ تلملانا اس کو کہتے ہیں
وہ دشمن اپنا سمجھے ہے بہ دل میں دوست ہوں جس کا
کہوں کیا اور پر الٹا زمانہ اس کو کہتے ہیں
یہ بولے دیکھ سب تصویر اس کی اور مری یکجا
پری رو اس کو کہتے ہیں دوانہ اس کو کہتے ہیں
کیا ہے شیفتہ عالم کو اپنا اس پری رو نے
دوانہ اک جہاں کو کر دکھانا اس کو کہتے ہیں
یہ چشم گوہر افشاں حضرت دل جلوہ فرما ہیں
نکل گھر سے در دولت پہ آنا اس کو کہتے ہیں
جو گلشن میں کسی نے دیکھ کھلنا غنچۂ گل کا
کہا بس آ کے یاں لذت اٹھانا اس کو کہتے ہیں
تبسم کر کے یوں مجھ سے کہا اس شوخ نے او بے
ادھر کو دیکھ ادا سے مسکرانا اس کو کہتے ہیں
غزل اور اس زمیں میں پڑھیے وہ جرأتؔ کہ سن جس کو
کہیں عاشق کلام عاشقانہ اس کو کہتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |