سنو یہ قصۂ جانکاہ کربلاے حسین
سنو یہ قصۂ جانکاہ کربلاے حسین
رکھو ادھر کو بھی ٹک گوش از براے حسین
جہاں سے واسطے امت کے جی سے جائے حسین
ہزار حیف کہ امت نہ ہو فداے حسین
حسین آکے مدینے سے خانماں سے گیا
حسین تشنہ گرسنہ ہو اس جہاں سے گیا
حسین بیکس و بے یار اپنی جاں سے گیا
جگر ہو سنگ کا سننے کو ماجراے حسین
حسین بے دل و غمناک بے وطن بھی ہوا
حسین جی سے گیا ٹکڑے سب بدن بھی ہوا
حسین کو نہ ہوئی گور بے کفن بھی ہوا
حسین کو کوئی کیا کہہ کے روئے ہائے حسین
حسین کا سا جگر کن نے یاں کیا ہے کہو
کسو نے جی کے تئیں اس طرح دیا ہے کہو
کوئی تو خون جگر جن نے یوں پیا ہے کہو
حسین جانے ہے یا جانے ہے خداے حسین
جبیں پہ زخم لگا چشمہ چشمہ خون بہا
خیال آئے بہت جی میں لیک کچھ نہ کہا
جھکا کے سر کے تئیں سجدے میں رہا سو رہا
جفا کی تیغ تھی مرآت حق نماے حسین
جو تعزیے کی ہو مجلس بکا کرو یارو
غم حسین میں چپکے رہا کرو یارو
بجاے چشم بھی اب گوش وا کرو یارو
کہ سرگذشت کہے ہے سر جداے حسین
حسین کشتہ ہوں تیرے ثبات پا کا ہائے
حسین تو ہی تھا شائستہ اپنی جا کا ہائے
ترا ہی کام اٹھانا تھا اس بلا کا ہائے
کیا ہے ایسا جگر کن نے تجھ سواے حسین
کہیں عزا کہیں آنکھوں کو چشمہ ساں ہیں جوش
تمام خلق میں انواع ہیں گے جوش و خروش
جہان قدس کے باشندگاں ہیں نیلی پوش
نہیں ہیں ہم ہی فقط کشتۂ وفاے حسین
جراحتوں سے تھا یاقوت رنگ خوں جاری
حسین ہائے تری اٹھ گئی سبھا ساری
لڑی سی ٹوٹ گئی موتیوں کی یک باری
ملے ہیں خاک میں کیا لعل پارہ ہاے حسین
کیا حسین کا برباد خانماں سارا
پسر حسین کا کس ظلم سے جواں مارا
حسین آپ مرا بیکسانہ بے چارہ
حسین رونے کی جاگہ ہے ہائے ہائے حسین
حسین جان سے اپنی گیا نہ دم مارا
ہزار حیف کہ اس کو بصد ستم مارا
اسی کا دل تھا جو اس راہ میں قدم مارا
رضاے حق ہے جو کچھ تھی وہی رضاے حسین
حسین دل زدہ نے صبر سا کیا ہے صبر
ہوا ہے تشنہ لبی سے قیامت اس پر جبر
ہزار حیف نہ صحرا سے اٹھ کے برسا ابر
دریغ پانی نہ دریا کنارے پائے حسین
غضب ہوا ہے ان اسلامیان بے دیں سے
حسین قتل ہوا سر جدا کیا کیں سے
نکالے اس کے جنازے کو کون تزئیں سے
ہوا اسیر پسر جو رہا بجاے حسین
مندیں حسین کی آنکھیں کہا بلا آئی
تمام فوج مخالف کی اس طرح دھائی
جفا رہے ہوئے لوگوں کو کیسی دکھلائی
جلائے خیمے لٹائی حرم سراے حسین
حرم کے لوگ معزز تھے موپریشاں سب
برہنہ پا و سر اونٹوں پہ تھے نمایاں سب
برشتہ سوختہ اس واقعے سے حیراں سب
زباں پہ ہائے حسین اور لب پہ ہائے حسین
کوئی تھی نوحے کی سرگرم غم کش و ناشاد
کسو کے دل سے نکلتی تھی خونچکاں فریاد
سکینہ روتی تھی ہر لحظہ باپ کو کر یاد
رہے نہ رکھے کسو کے مگر منائے حسین
کوئی کہے تھی کہ اکبر کو مر نہ جانا تھا
نہ جنگ گاہ میں عباس کو بلانا تھا
چچا کے ساتھ نہ قاسم کو آہ آنا تھا
کوئی رہا نہ جسے ہم کو سونپ جائے حسین
کوئی کہے تھی کہ ہے عابدیں بہت بیمار
بدن تو شدت تپ سے ہے اس کا زار و نزار
کرے ہے اس پہ بھی دلجوئی ہووے ہے جو خوار
ولے سکینہ کی خاطر کہاں سے لائے حسین
کوئی کہے تھی کہ اب اک یہی ہے نام خدا
سواے اس کے جو دیکھو تو کوئی بھی نہ رہا
زناں اسیر ہوئیں مرد ایک ایک موا
کہاں حسین کے گذرے ہیں اقرباے حسین
عزیز و خویش و پسر لگ گئے کنارے سب
ستم سے ظلم سے یعنی گئے ہیں مارے سب
غریق خون کے دریا میں ہیں بچارے سب
کوئی نگاہ نہ چڑھتا تھا آشناے حسین
کوئی کہے تھی کہا ہوگا شہ نے کیا کہیے
یہی ہے مصلحت اب تو کہ جور ہی سہیے
گلے کو رکھ کے تہ تیغ چپکے مر رہیے
نہ مقتضی ہوئی کہنے کی کچھ حیاے حسین
کوئی کہے تھی کہ ایسا نہ ہوئے گا کوئی
ہر ایک بات میں تھی تابعوں سے خوش گوئی
سلوک اس کے کریں یاد یا کہ دلجوئی
کہیں تو کیا کہیں کس منھ سے ہو ثناے حسین
سیاہ کاسہ فلک کو مگر تھا سودا کچھ
کہ ان نے ٹک نہ کی اس میہماں کی پروا کچھ
ادھر کو موذی کریں زہرمار کیا کیا کچھ
سواے غصہ و غم اور کچھ نہ کھائے حسین
کوئی کہے تھی کہ غارت ہوا ہمارا گھر
ملا ہے خاک میں شہ بازگوں ہوا افسر
حرم کے لوگ جو ہیں سو اسیر و گرم سفر
رہے تو رووے کھڑی لے کوئی عزاے حسین
بہن سے کہتی تھی رو رو کے زینب اے کلثوم
چلا تھا بھائی مدینے سے کیسے وقت شوم
شتابی راہ جو کرتا تھا قطع تھا معلوم
کہ سر کے مارے ہی جانا تھا مدعاے حسین
کبھی کہے تھی زمانہ الٹ گیا اک بار
نہ اس چمن میں رہے کچھ نہال نے تھے خار
خزاں نے لوٹے ہیں کیا پات پات کر گلزار
ہوا اب اوروں کی ہے یاں کہ اب ہواے حسین
کوئی کہے تھی کہ یہ بھی خدا کی باتیں ہیں
کبھو کے دن بڑے ہیں یا کبھو کی راتیں ہیں
نشان کھوئے وہی دشمنوں کی گھاتیں ہیں
نگوں پڑا ہے سر خاک پر لواے حسین
کوئی یہ کہتی تھی وہ وقت آگیا دیکھو
امام وقت گلے کو کٹا گیا دیکھو
جراحت ایسی سر اوپر اٹھا گیا دیکھو
کہ سر رہا نہ جو سجدے کو پھر جھکائے حسین
وہ ابتدا ہے محمدؐ گلے لگاتا تھا
علیؓ عزیز بہت رکھ کے سر چڑھاتا تھا
سو کربلا میں سر اس کا سناں پہ جاتا تھا
دکھائی چرخ نے اس طور انتہاے حسین
یہ کہہ کے شام کی جانب ہوئے اسیر رواں
قلم کی میرؔ نے بے تاب ہوکے رکھ لی زباں
کہ آگے خوب نہ تھا ایسے واقعے کا بیاں
شفیع حشر میں بس ہے اسے ولاے حسین
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |