Jump to content

سوز و گداز عشق کا لذت چشیدہ ہوں

From Wikisource
سوز و گداز عشق کا لذت چشیدہ ہوں
by داغ دہلوی
331854سوز و گداز عشق کا لذت چشیدہ ہوںداغ دہلوی

سوز و گداز عشق کا لذت چشیدہ ہوں
مانند آبلہ ہمہ تن آب دیدہ ہوں

گر تو نہ ہو تو پھر کسی کافر کا دل لگے
دوزخ میں آرمیدہ ارم سے رمیدہ ہوں

اللہ ر کشاکش دیر و حرم کہ میں
ظالم ہزار ہاتھ سے دامن دریدہ ہوں

پروانہ پاس شمع کے بلبل ہے گل کے پاس
اک میں کہ تیری بزم میں خلوت گزیدہ ہوں

افتادگی پہ بھی نہ گئی اس کی جستجو
گویا زمیں پہ سایۂ مرغ پریدہ ہوں

اے آرزوئے تازہ نہ کر مجھ سے چھیڑ چھاڑ
میں پائے شوق و دست تمنا بریدہ ہوں

اے داغؔ جس کے واسطے روز جزا بنا
وہ کون ہے وہ میں ہی تو آفت رسیدہ ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.