سو کی اک بات میں کہی تو ہے
Appearance
سو کی اک بات میں کہی تو ہے
یعنی جو کچھ کہ ہے وہی تو ہے
دید وا دیدہ کو غنیمت جان
حاصل زندگی یہی تو ہے
تیرے دیدار کے لئے یہ دیکھ
جان آنکھوں میں آ رہی تو ہے
ڈھ گیا ہو نہ خانۂ دل آج
سیل خوں چشم سے بہی تو ہے
واں بھی راحت ہو یا نہ ہو دیکھیں
اک مصیبت یہاں سہی تو ہے
مجھ سا عریاں کہاں ہے گل اس کے
رنگ کے بر میں اک یہی تو ہے
تیرے احوال سے حسنؔ بارے
اس کو تھوڑی سی آگہی تو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |