سچ ہے تیری ہی آرزو مجھ کو
Appearance
سچ ہے تیری ہی آرزو مجھ کو
کہیں جینے دے یوں ہی تو مجھ کو
بندہ نو خرید ہوں ہر دم
رکھیے آنکھوں کے رو بہ رو مجھ کو
کل تک اس کی تلاش تھی لیکن
آج ہے اپنی جستجو مجھ کو
پہلے وہ تھا کہ تم نہ تھے آگاہ
اب وہ ہوں سن لو کو بہ کو مجھ کو
واں شکایت پہ وہ حکایت ہے
کہ نہیں جائے گفتگو مجھ کو
اے حیات دو روزہ لے آئی
کن گرفتاریوں میں تو مجھ کو
داغؔ یکسو ہو خوش نہیں آتی
ناامیدانہ آرزو مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |