سینہ صافی کی ہے جسے عینک
Appearance
سینہ صافی کی ہے جسے عینک
اس کوں دیدار یار ہے بے شک
صفحۂ دل کوں داغ کی کر مہر
عشق کے شاہ نے دیا دستک
رہزن عقل سیں نہیں وسواس
ہوں حمایت میں عشق کی جب تک
بوالہوس سوز دل کوں کیا جانے
نہ جلے ہرگز آگ میں ابرک
غیر کا نقش غیر نقش نگار
صفحۂ دل ستی کیا ہوں حک
شور ہے بس کہ تجھ ملاحت کا
دل ہمارا ہوا ہے کان نمک
گر جلا چاہتا ہے مثل سراجؔ
اے دل اس شعلہ رو کی دیکھ جھلک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |