شاعرو حد قدامت سے نکل کر دیکھو
Appearance
شاعرو حد قدامت سے نکل کر دیکھو
داستانوں کے اب عنوان بدل کر دیکھو
کیوں ہو تقلید کلیم آج بھی اے دیدہ ورو
دیدنی ہو کوئی جلوہ تو سنبھل کر دیکھو
شمع و پروانہ کا انداز نیا ہے کہ نہیں
ذکر تھا جس کا اب اس بزم میں چل کر دیکھو
اور بھی رخ نظر آئیں گے تجلی کے ابھی
رخ نگاہوں کے ذرا اور بدل کر دیکھو
اگلے وقتوں کے فسانے نہ سناؤ یارو
نئے ماحول کے سانچے میں بھی ڈھل کر دیکھو
کل کے انداز بھی دل کش تھے یہ تسلیم مگر
آج بھی شہر نگاراں میں نکل کر دیکھو
اپنے احباب کی جانب نہ اٹھاؤ نظریں
دیکھنا ہے اگر اخترؔ تو سنبھل کر دیکھو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |