شام کو راستے پر
رات کے عکس تخیل سے ملاقات ہو جس کا مقصود
کبھی دروازے سے آتا ہے کبھی کھڑکی سے
اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے
اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں
وہ تصور میں مرے عکس ہے ہر شخص کا ہر انساں کا
کبھی بھر لیتا ہے اک بھولی سی محبوبۂ نادان کا بہروپ کبھی
ایک چالاک جہاں دیدہ و بے باک ستمگر بن کر
دھوکا دینے کے لیے آتا ہے بہکاتا ہے
اور جب وقت گزر جائے تو چھپ جاتا ہے
مری آنکھوں میں مگر چھایا ہے بادل بن کر
ایک دیوار کا روزن اسی روزن سے نکل کر کرنیں
مری آنکھوں سے لپٹتی ہیں مچل اٹھتی ہیں
آرزوئیں دل غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے سے
اور میں سوچتا ہوں نور کے اس پردے میں
کون بے باک ہے اور بھولی سی محبوبہ کون
سوچ کو روک ہے دیوار کی وہ کیسے چلے
کیسے جا پہنچے کسی خلوت محجوب کے مخمور صنم خانے میں
وہ صنم خانہ جہاں بیٹھے ہیں دو بت خاموش
اور نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتے ہیں
ذہن کو ان کے دھندلکے نے بنایا ہے اک ایسا عکاس
جو فقط اپنے ہی من مانے مناظر کو گرفتار کرے
میں کھڑا دیکھتا ہوں سوچتا ہوں جب دونوں
چھوڑ کر دل کے صنم خانے کو گھر جائیں گے
صحن میں تلخ حقیقت کو کھڑا پائیں گے
ایک سوچے گا مری جیب یہ دنیا یہ سماج
ایک دیکھے گا وہاں اور ہی تیاری ہے
مجھ کو الجھن ہے یہ کیوں میں تو نہیں ہوں موجود
رات کی خلوت محجوب کے مخمور صنم خانے میں
مری آنکھوں کو نظر آتا ہے روزن کا دھواں
اور دل کہتا ہے یہ دود دل سوختہ ہے
ایک گھنگھور سکوں ایک کڑی تنہائی
میرا اندوختہ ہے
مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ دنیا مٹ جائے
مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ بیکار سماج
اپنی پابندی سے دم گھٹ کے فسانہ بن جائے
مری آنکھوں میں تو مرکوز ہے روزن کا سماں
اپنی ہستی کو تباہی سے بچانے کے لیے
میں اسی روزن بے رنگ میں گھس جاؤں گا
لیکن ایسے تو وہی بت نہ کہیں بن جاؤں
جو نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتا ہے
چھوڑ کر جس کو صنم خانے کی محجوب فضا
گھر کے بیباک المناک سیہ خانے میں
آرزوؤں پہ ستم دیکھنا ہے گھلنا ہے
میں تو روزن میں نہیں جاؤں گا دنیا مٹ جائے
اور دم گھٹ کے فسانہ بن جائے
سنگ دل خون سکھاتی ہوئی بیکار سماج
میں تو اک دھیان کی کروٹ لے کر
عشق کے طائر آوارہ کا بہروپ بھروں گا پل میں
اور چلا جاؤں گا اس جنگل میں
جس میں تو چھوڑ کے اک قلب فسردہ کو اکیلے چل دی
راستہ مجھ کو نظر آئے نہ آئے پھر کیا
ان گنت پیڑوں کے میناروں کو
میں تو چھوتا ہی چلا جاؤں گا
اور پھر ختم نہ ہوگی یہ تلاش
جستجو روزن دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی
میں ہوں آزاد مجھے فکر نہیں ہے کوئی
ایک گھنگھور سکوں ایک کڑی تنہائی
مرا اندوختہ ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |