شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے
Appearance
شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے
تو ہنس کے بولے الگ بیٹھیے قرینے سے
ثواب ہو کہ نہ ہو اس سے کیا غرض زاہد
مزہ ملا مجھے تجھ کو پلا کے پینے سے
شب فراق یہ احسان ہے تصور کا
کہ سو رہا ہوں لگا کر کسی کو سینے سے
فلک مٹائے گا مجھ کو جو تم مکدر ہو
عداوت اس کی بڑھے گی تمہارے کینے سے
غم فراق میں کیا لطف زندگی ہے حفیظؔ
ہمیں تو موت ہی بہتر ہے ایسے جینے سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |