شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا
شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا
یہی بس خیال تھا دم بہ دم کہ ابھی تو پاس وہ یار تھا
جو نہ تھا وہ غیرت گلستاں تو کروں اب اس کا میں کیا بیاں
کہ الم جدائی کا ہر زماں مرے ایک دل پہ ہزار تھا
شب ہجر کے کہیں کیا الم نظر آئے صبح کو بہتے یم
کہ بہ جوش بارش ابر غم پہ بندھا سرشک کا تار تھا
تپ غم سے تھا جو جلا بلا مرے سینے میں دل مبتلا
سو دھواں ہو یوں وہ ہوا ہوا کہ نہ شعلہ تھا نہ شرار تھا
کبھی دست زلف سے تھے بہم کبھی رخ کے لیتے تھے بوسے ہم
شب و روز اب تو ہے درد و غم کبھی ووں بھی لیل و نہار تھا
جسے یاد اپنی لگائیے اسے صاف دل سے بھلائیے
ٹک ادھر تو آنکھ ملائیے یہی ہم سے قول و قرار تھا
شب ہجر اب یہ ستائے ہے کہ خزان مرگ دکھائے ہے
وہ رخ اب کہاں نظر آئے ہے کہ جو رشک صبح بہار تھا
مجھے شب جو نشۂ غم چڑھا تو پھرا کیا میں کھڑا کھڑا
رہا غش میں صبح کو جو پڑا اسی کیف کا یہ اتار تھا
ہوئی حیرت اب جو دو چند یاں کروں اور وجہ میں کیا بیاں
رخ یار صبح کو مہر ساں مگر آئنے سے دو چار تھا
مجھے ایک عاشق خستہ کی کہیں کل جو قبر نظر پڑی
نہ کسی سے کوئی لگائے جی یہ کھدا بہ لوح مزار تھا
دم قتل کوئی جو بول اٹھا تو خجل ہو کیا وہ خفا ہوا
اسے تم نے ذبح عبث کیا یہ تمہارا شکر گزار تھا
کوئی ناؤ بحر میں تھی رواں کئی اس میں بیٹھے تھے مہو شاں
کہیں اس گروہ کے درمیاں در ناز بھی وہ سوار تھا
تو بہ موج پرتو ماہ سا کہو اضطراب میں دل کا کیا
کبھی پار تھا کبھی وار تھا کبھی وار تھا کبھی پار تھا
غزل اور قافیے کو بدل میں سناؤں یاروں کو بر محل
ہوا مختصر نہ بہ یک غزل کہ بڑا فسانۂ یار تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |