شب ہجراں میں مت پوچھو کہ کن باتوں میں رہتا ہوں
Appearance
شب ہجراں میں مت پوچھو کہ کن باتوں میں رہتا ہوں
تصور باندھ اس کا صبح تک کچھ کچھ میں کہتا ہوں
جو دیکھو غور کر تو جز و کل بالکل مجھی میں ہے
کبھی ہوں اک حباب آسا کبھی دریا ہو بہتا ہوں
ترے رکنے سے پیارے بس مرا دم رکنے لگتا ہے
نہیں تو بولتا تو بولیاں کن کن کی سہتا ہوں
نہیں ملتی ہے فرصت غیر اسے گھیرے ہی رہتے ہیں
کہوں کچھ حال دل بس ڈھونڈھتا اتنا سبہتا ہوں
یہ جوش اشک نے طوفاں اٹھایا ہے کہ اے جرأتؔ
کہے ہے کشور تن میں تو کوئی دم کو ڈہتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |