شمع ساں شب کے میہماں ہیں ہم
Appearance
شمع ساں شب کے میہماں ہیں ہم
صبح ہوتے تو پھر کہاں ہیں ہم
تم بن اے رفتگان ملک عدم
ہستی اپنی سے سرگراں ہیں ہم
باغباں ٹک تو بیٹھنے دے کہیں
آہ گم کردہ آشیاں ہیں ہم
دیکھتے ہیں اسی کو اہل نظر
گو نہاں ہے وہ اور عیاں ہیں ہم
نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں
نقش دیوار بوستاں ہیں ہم
جنس آسودگی نہیں ہم پاس
درد اور غم کے کارواں ہیں ہم
دل سے نالہ نکل نہیں سکتا
یاں تلک غم سے ناتواں ہیں ہم
کیا کہیں ہم حسنؔ بقول ضیاؔ
جس طرح سے کہ اب یہاں ہیں ہم
داغ ہیں کاروان رفتہ کے
نقش پائے گزشتگاں ہیں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |