شوق دل فکر دہن میں ہے جو رہبر کی طرح
شوق دل فکر دہن میں ہے جو رہبر کی طرح
ڈھونڈھتا ہوں چشمۂ حیواں سکندر کی طرح
میری آہوں کو عبث ہے نارسائی کا گلہ
دل میں گھر کرنا تو سیکھیں یاد دلبر کی طرح
سر سے پا تک ہے مثال گردن تسلیم خم
کس سے ہوتا ہے ادب قاتل کا خنجر کی طرح
تھا جو وقت قتل ارمان ہم آغوشی مجھے
خوں کی چھینٹیں لپٹی ہیں خنجر سے جوہر کی طرح
درد دل اٹھ اٹھ کے ڈھاتا ہے قیامت جان پر
شام ہجر عاشقاں ہے صبح محشر کی طرح
دل کو آنکھوں نے سجھائی ہیں جو راہیں عشق کی
ہر جگہ مجھ کو لیے پھرتا ہے رہبر کی طرح
یاد گیسو اک بلائے جاں ستاں ہے ہجر میں
کاٹے کھاتا ہے مرا گھر مجھ کو اژدر کی طرح
اس کو لطف درد اس کو لذت مشق جفا
دل کی عادت بگڑی ہے خوئے ستم گر کی طرح
ان کی آمد کی خبر سن کر ہجوم شوق سے
کشمکش ہے خانۂ دل میں بھرے گھر کی طرح
مثل دیوانہ پھرا کرتا ہے کیوں یہ روز و شب
آسماں کو بھی ہے کیا سودا مرے سر کی طرح
آپ کی غفلت سے ساری آرزوئیں مر گئیں
دل مرا ویران ہے اجڑے ہوئے گھر کی طرح
بن کے شبنم لاکھ ٹپکیں چشم اختر سے سرشک
روئے گا کیا آسماں اس دیدۂ تر کی طرح
ٹکڑے ٹکڑے دل جگر ہیں تیز فقروں سے حضور
آپ کی تیغ زباں چلتی ہے خنجر کی طرح
راہ میں دل نیچی نظروں سے ہوا جاتا ہے ذبح
جھک کے بھی چلتا ہے وہ قاتل تو خنجر کی طرح
شکر خالق ہے کہ بے منت میں ہوتا ہوں شہید
دل کو یاد ابروئے قاتل ہے خنجر کی طرح
توبہ توبہ کیا غضب ساقی کی غفلت نے کیا
سب کی صورت دیکھتا ہوں رند بے زر کی طرح
ہجر ساقی میں نظر آیا کہیں گر شغل مے
ڈبڈبائے دیدۂ تر چشم ساغر کی طرح
آرزوئے وصل قاتل اتنی ہے مجھ زار کو
ہوں ہمہ تن صورت آغوش خنجر کی طرح
اے نظرؔ عشق میان یار کا ہے یہ اثر
جسم لاغر جو نہاں ہے جاں کے جوہر کی طرح
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |